اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + اے پی اے + نیٹ نیوز + بی بی سی) سپریم کورٹ نے ہزارہ برادری کے قتل کے ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے انہیں دوبارہ رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔ سیکرٹری دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کوئٹہ کے واقعہ کی ذمہ دار سول انتظامیہ ہے، خفیہ اداروں کا کام محض معلومات کا تبادلہ ہے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمی کے تین رکنی بینچ نے مقدمہ کی سماعت کی۔ عدالت نے سےکرٹری دفاع کی رپورٹس کو غےر تسلی بخش قرار دے دےا۔ سےکرٹری دفاع نے آئی اےس آئی کی رپورٹ عدالت مےں پےش کی جس میں کہا گیا ہے کہ سول انتظامیہ ناکام ہو گئی ہے سول حکومت انسداد دہشت گردی کا پروگرام طے نہیں کر رہی۔ چےف جسٹس نے کہا رپورٹ مےں وہ جواب نہےں جو ہم نے مانگے تھے موجودہ واقعہ کا علم اےجنسےوں کو کےوں نہےں ہو سکا۔ پولیس کو اپنے علاقے میں مجرمانہ سرگرمیوں کا علم ہونا چاہئے۔ چےف جسٹس نے درےافت کےا کہ حالےہ واقعہ کی کوئی اطلاع تھی اس پر سےکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) آصف ےاسےن ملک نے کہا کہ اسے کسی واقعہ کی اطلاع نہےں تھی ۔سےکرٹری دفاع نے بتاےا کہ آئی اےس آئی نے دہشت گردی کے خلاف 130 آپرےشنز کئے اس پر چےف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے سابقہ آپرےشنز کے بارے مےں نہےں پوچھا۔ سےکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ ایجنسیوں کے پاس ہر واقعہ کی اطلاع نہےں ہوتی اطلاعات پر تصوےر بنتی ہے جو کبھی واضح نہےں بھی ہوتی۔ اےجنسےاں ہر وقت ہر کسی پر نظر نہےں رکھ سکتےں۔ چےف جسٹس نے کہا کہ پےش کی گئی تمام معلومات اخبارات مےں آ چکی ہےں۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آج فوج بلانے کے نعرے لگ رہے ہےں گورنر راج کے بعد اےجنسےز چوکس رہتےں تو دوسرے واقعہ سے بچا جا سکتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ رپورٹ مےں سول حکومت کے ناکام ہونے کا بتاےا گےا ہے۔ لاہور سے بارودی مواد کوئٹہ پہنچاےا جاتا ہے اےجنسےاں اور پولےس کےا کر رہی ہے۔ چےف جسٹس نے کہا کہ آئی اےس آئی کی رپورٹ مےں سابقہ واقعات پر کئے گئے اقدامات کے حوالہ سے بتاےا گےا ہے جبکہ عدالت نے موجودہ واقعہ کے بارے مےں پوچھا تھا بتاےا جائے کہ کےوں اےجنسےز کو اس واقعہ کا علم نہےں ہو سکا اس پر سےکرٹری دفاع نے تسلےم کےا کہ موجودہ واقعہ کا علم آئی اےس آئی کو نہےں ہو سکا۔ جسٹس خلجی عارف نے آئی ایس آئی کی رپورٹ پڑھ کر بتاےا کہ تمام تر ذمہ داری سول انتظامےہ پر عائد کی گئی ہے کہ وہ ناکام ہوئی۔ سےکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ تمام واقعات کی رپورٹ اےجنسےز کے پاس ہونا ضروری نہےں ہوتا۔ اےم آئی ان واقعات مےں ملوث نہےں ہوتی لےکن جب کوئی اطلاع ملے تو وہ آئی اےس آئی کو فراہم کر دےتی ہے آئی اےس آئی کو مخصوص ذرائع سے اطلاعات ملتی ہےں ان کو جوڑ کر جو تصوےر بنائی جاتی ہے وہ کبھی اس قدر واضح نہےں ہوتی کہ اس سے کوئی نتےجہ اخذ کےا جا سکے ۔ چےف جسٹس نے کہا کہ 10 جنوری کے واقعہ کے بعد گورنر راج لگا اور اگر اےجنسےز چوکنا رہتےں تو اس واقعہ سے بچا جا سکتا تھا اس پر سےکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ تمام اےجنسےز اپنا اپنا کام کر رہی ہےں لےکن اےجنسےوں کے درمےان معلومات کی شےئرنگ مےں کسی خامی کی وجہ سے موجودہ واقعہ کی مکمل اطلاع حاصل نہےں کی جا سکی ۔ان کا کہنا تھا کہ چار دہشت گردوں کو ہلاک کر دےا گےا ہے جبکہ واقعہ کا ماسٹر مائنڈ پکڑا گےا ہے ۔ عدالت نے تمام اےجنسےوں کی رپورٹ طلب کی تھی ۔ جب کےس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل عرفان قادر ، اےڈووکےٹ جنرل بلوچستان امان اللہ کنرانی اور سےکرٹری داخلہ خواجہ صدےق اکبر عدالت مےں موجود نہےں تھے اس پر جسٹس خلجی عارف حسےن نے کہا کہ حکومت کی سنجےدگی کا عالم ہے کہ اتنا بڑا واقعہ ہے اس کےس کی سماعت ہو رہی ہے۔ نوٹسز جاری ہو چکے ہےں لےکن اس کے باوجود کوئی ذمہ دار آدمی کمرہ عدالت مےں موجود نہےں ۔ چےف جسٹس نے کہا کہ ہم نے رات 12 بجے صدر، وزےر اعظم اور گورنر بلوچستان کو اپنے حکم نامہ کی نقول بھجوا دی تھےں لےکن کسی نے ضرورت محسوس نہےں کی کہ وہ اس کےس مےں جواب داخل کرے۔ لوگ مر رہے ہیں حکام چین کی بانسری بجا رہے ہیں حکومت جاگ رہی ہوتی تو ایسے سانحہ نہ ہوتے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل شفےع محمد چانڈےو نے عدالت کو بتاےا کہ حکومت قطعی طور پر سو نہےں رہی وہ متعلقہ کام کر رہے ہےں ےہی وجہ ہے کہ متعلقہ لوگوں کو عدالت آنے مےں بھی دےر ہورہی ہے ۔ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل بےمار ہےں جس کی وجہ سے عدالت مےں پےش نہےں ہو سکے۔ چےف جسٹس نے کہا کہ شہرےوں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے لےکن عسکری اےجنسےوں کی معلومات اےسے واقعات کو روکنے مےں مدد دے سکتی ہےں۔ چےف جسٹس نے کہا کہ خفےہ ادارے واقعہ سے قبل معلومات کا تبادلہ کےوں نہےں کرتے ہمےں معلوم ہے کہ انڈر کور کام ہوتا ہے جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ اےجنسی کی رپورٹ ےہ کہہ رہی ہے کہ سول انتظامےہ ناکام ہو گئی ہے اور انسداد دہشت گردی کے حوالہ سے کوئی پروگرام وضع نہےں کےا گےا ۔ چےف جسٹس نے کہا کہ پولےس کوعلم نہ ہو تو دےگر اےجنسےاں بھی مدد نہےں کرےں گی پولےس کو اپنے علاقوں مےں سرگرمےوں کا علم ہونا چاہےے۔ جسٹس خلجی عارف حسےن نے کہا کہ سول انتظامیہ ناکام ہونے کا الزام خطرے کی گھنٹی ہے ہمیں فوج بلانے کے نعرے سنائی دے رہے ہیں، عدلیہ جمہوریت اور پارلیمانی نظام کو مضبوط بنانا چاہتی ہے مگر حکومت کیا کر رہی ہے امن و امان کی ذمہ داری سول انتظامیہ کی ہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دھرنوں سے ملک مفلوج ہو چکا ہے آج ےہ صورت حال ہے کہ دھرنا ختم ہوتا ہے اور پھر شروع ہو جاتا ہے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملات سنبھالے۔ دوران سماعت عدالت نے وزارت دفاع اور داخلہ کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹس کا جائزہ لیا ۔آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق سول انتظامیہ تمام صورتحال کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔ عدالت نے سےکرٹری دفاع کو ہداےت کی کہ وہ دوبارہ تسلی بخش جواب داخل کرےں، مقدمہ کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو سےکرٹری داخلہ خواجہ صدےق اکبر نے کہا کہ انہوں نے کابےنہ کے اجلاس مےں شرکت کرنی ہے اس لئے وقت دےا جائے ۔ چےف جسٹس نے استفسار کےا کہ وہ کب تک واپس آ جائےں گے۔ سےکرٹری داخلہ نے کہا کہ وہ 3 بجے تک واپس آ جائےں گے ۔چےف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کا انتظار کر رہے ہےں آپ فارغ ہو کر واپس آئےں۔ چےف جسٹس نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل عرفان قادر نہ آئے تو عدالت براہ راست وزےر اعظم کو بلائے گی ۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ آئی ایس آئی نے الزام لگایا ہے کہ سول حکومت انسداد دہشت گردی پروگرام وضع نہیں کر رہی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل شفیع چانڈیو نے کہا حکومت بلوچستان کی رپورٹ آگئی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ نے ہمارا حکم نامہ پڑھا یا نہیں۔عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ یہ معاملہ وزیراعظم اور دیگر کے علم میں لائیں۔ بتائیں عوام کے جان و مال کے تحفظ کیلئے کیا اقدامات کئے گئے۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کی طرف سے رپورٹ جمع کرائی جائےگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی حکم میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات نہیں دئیے گئے۔ روزانہ واقعات میں اہل تشیع یا اہل سنت کے لوگ مارے جاتے ہیںجس کسی کا بھی خون گرے وہ زیادتی ہے۔ ڈائریکٹر لیگل وزارت دفاع کمانڈر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ لشکر جھنگوی نے ذمے داری قبول کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے جواب دیا کس نے ایسا کہا، کئی مرتبہ جعلی کال بھی چل جاتی ہے۔آپ شواہد اکٹھے کرنے کی بجائے سنی سنائی بات بتا رہے ہیں۔ کمانڈر شہباز نے کہا دہشت گردوں نے پانی کی کمی کا فائدہ اٹھا کر ٹینکر کے ذریعے دھماکہ خیز مواد پہنچایا۔ جہاں واقعہ ہوا وہاں پانی کی کمی ہے، 150ٹینکرز روزانہ جاتے ہیں۔ باریک بینی سے چیک کیا جاتا تو یہ واقعہ پیش نہ آتا پانی کا ٹینکر پولیس اور ایف سی کی چیک پوسٹوں سے گزر کر وہاں تک پہنچا۔آئی ایس آئی نے اس قسم کے واقعے کی اطلاع دی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کا واقعہ پہلے بھی ایمبولینس کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔آئی ایس آئی نے بتا دیا تھا تو پولیس ،لیویز اور ایف سی کی ذمہ داری تھی سخت چیکنگ کرتے۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا اس کا مطلب ہے آپ غفلت مان رہے ہیں۔آپ کو اندازہ نہیں ہورہا کہ صورتحال کس قدر خراب ہے۔کمانڈر شہباز نے کہا ان علاقوں میں کام کرنے والے مخبروں کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے۔ سیکرٹری داخلہ نے آئی بی کی جانب سے رپورٹ عدالت میں داخل کرائی اور رپورٹ کو خفیہ رکھنے کی استدعا کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ احتیاطی تدابیر سے آگاہ ہیں، افسروں کو اسی لئے نہیں بلاتے۔ اداروں کی آپس میں کوئی کوآرڈینیشن نہیں۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا آپ کو تو معلومات تھیں، ایف سی نے کیا کیا؟ ایف سی کے سربراہ کو آج جمعرات کو بلا کر پوچھیں گے وہ کیا کر رہے ہیں۔ حکومت کے پاس 35 سے 40فیصد تک درست پیشگی معلومات تھیں۔ حکومت کو معلومات تو بہت ملتی رہتی ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے کہا ہمیں یہ اطلاع ملتی ہے کہ حملہ ہونے والا ہے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ حملہ کہاں ہونا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ واقعے کے بعد متعلقہ اداروں کو تمام ٹھکانوںکا سرچ آپریشن کر لینا چاہئے تھا۔ کیا آئی بی چیف اور آئی جی کو تبدیل کرنے کے بجائے مسئلے کی جڑ تلاش نہیں کرلینی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے سیکرٹری داخلہ بلوچستان، ایف سی کمانڈنٹ اور سی سی پی او کوئٹہ کو آج طلب کرلیا ہے۔ ان سے پوچھا جائیگا کہ ان اہلکاروں کی نشاندہی کی جائے جنہوں نے دھماکہ خیز ٹینکر چیک نہیں کیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کی رپورٹ پڑھ کر عدالت میں پیش ہوں۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ سیکرٹری دفاع اور سیکرٹری داخلہ نہ آئیں۔ کوئٹہ میں 10جنوری کو ہونے والے واقعے کی بھی آج رپورٹ پیش کی جائے۔ اٹارنی جنرل کے ذریعے صدر، وزیراعظم اور گورنر بلوچستان کا تحریری بیان پھر طلب کیا گیا ہے، وفاقی سیکرٹریز دفاع و داخلہ کو حاضری سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سانحہ کوئٹہ کی سماعت ان کیمرہ کرنے کی استدعا اور گورنر بلوچستان کی رپورٹ بھی مسترد کر دی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ میں پیشگی اطلاع کے باوجود حکومت نے اقدامات کیوں نہیں کئے۔ کیا انٹیلی جنس ادارے قانون نافذکرنے والے اداروں کو ہاتھ پکڑ کر واردات کی جگہ پر لے جائیں۔ اٹارنی جنرل جواب نہیں دے رہے ہم کہیں گے کہ وزیراعظم خود آ کر جواب دیں۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سانحہ کوئٹہ کے بارے میں سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کے مطابق لشکر جھنگوی کے ترجمان ابوبکر صدیق نے سانحہ ہزارہ ٹاﺅن کی ذمہ داری قبول کی۔ دہشتگردی کی اطلاع متعلقہ اداروں کو دیدی تھی جس کے بعد 2 چیک پوسٹیں قائم کی گئیں۔ دہشت گردوں نے پانی کی کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کی۔ عدالت سے استدعا کی تھی کہ ان کیمرہ بریفنگ کی اجازت دی جائے جو ابھی تک نہیں ملی۔ آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ میں درخواست کی ہے کہ سانحہ کوئٹہ سے متعلق کچھ باتیں بند کمرے میں بتانا چاہتے ہیں۔ آئی ایس آئی وزارت دفاع کے تحت کام کرتی ہے آپریشنز میں شامل نہیں ہوتی۔