خرم شہزاد
1882 ء میں قائم ہونے والی’’پنجاب یونیورسٹی‘‘ ملک کی قدیم ترین اور عظیم الشان مادر علمی ہے۔ 131 سالہ تاریخ میں پنجاب یونیورسٹی نے بے شمار عظیم سپوت پیدا کئے ہیں جنھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک اور اپنی جامعہ کا نام روشن کیا مگر افسوس کہ سال 2008 سے چند دہائیاں قبل اس عظیم الشان درسگاہ میں ایک سیاسی جماعت کی اجارہ داری قائم رہی جس نے ادارے کے حسن کو گہنا دیا۔ ایک نظریے کے تحت پنجاب یونیورسٹی میں ایک سیاسی جماعت سے وابستہ نااہل اساتذہ اور ملازمین کی بڑی تعداد کو ’’اسلامی انقلاب ‘‘برپا کرنے کے لئے ’’غیر اسلامی طریقے ‘‘سے میرٹ کے خلاف بھرتی کیا گیا ۔ یہ دور یونیورسٹی کی تعلیمی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا جہاں نوکریوں اور ترقیوں کے حصول کا معیار صرف اور صرف ایک سیاسی جماعت سے وابستگی تھی ۔ سال 2000 کے بعد ملک بھر کی جامعات اور ہائر ایجوکیشن کے شعبہ میں خوب ترقی ہوئی اور اعلیٰ تعلیمی کلچر پروان چڑھا مگر سال 2008 تک پنجاب یونیورسٹی ایک سیاسی کلچر کی اجارہ داری کے باعث جمود کا شکار رہی اور جامعہ میں تحقیقی کلچر کو فروغ نہ مل سکا۔وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کی زیر قیادت موجودہ انتظامیہ کے چھ سالہ دور میں ہر سال 100 سے زائد پی ایچ ڈی پیدا کئے گئے اور پی ایچ ڈی کی یہ سالانہ اوسط پیداوار41 سے بڑھ کر سالانہ 144تک پہنچ چکی ہے جو کہ یونیورسٹی کی موجودہ قیادت کی دور اندیشی اور تحقیق دوستی سے ہی ممکن ہوا ہے۔ کسی بھی یونیورسٹی کا بنیادی اور سب سے اہم کام نئے علم کی تخلیق ہوتا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے جب جنوری 2008 میں جامعہ کی قیادت سنبھالی تو سب سے پہلے پی ایچ ڈی پروگرام کو مضبوط کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجاب یونیورسٹی کی پی ایچ ڈی پیدا کرنے کی سالانہ اوسط میں-2007 1990 میں 41 کے مقابلے 2008 تا 2013 میں 144 پی ایچ ڈی سالانہ یعنی تین سو گنا سے بھی زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ سال 2012 میں پنجاب یونیورسٹی نے صرف ایک سال میں 206 پی ایچ ڈی پیدا کر کے پاکستان کی تاریخ میں ایک ریکارڈ قائم کر دیا ہے جبکہ کوئی بھی یونیورسٹی 150 سے زائد پی ایچ ڈی ایک سال میں پیدا نہیں کر پائی۔ موجودہ انتظامیہ کے چارج لینے سے قبل سال 2007 میں تحقیقی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے باعث امپیٹکٹ فیکٹر جرنلز میں پنجاب یونیورسٹی کے صرف 162 تحقیقی مقالہ جات شائع ہوئے ۔ یہ تعداد بھی کئی سو گنا بڑھ چکی ہے اور گزشتہ سال پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کے 552 تحقیقی مقالہ جات امپیکٹ فیکٹر جرنلز میں شائع ہوئے ہیں جبکہ 2012 میں تاریخ میں پہلی مرتبہ پنجاب یونیورسٹی کے 1000سے زائد تحقیقی مقالہ جات ہائرایجوکیشن کمیشن کے منظور کردہ جرائد میں شائع ہوئے جو کہ یونیورسٹی میں پروان چڑھتے ہوئے تحقیقی کلچر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔یہاں تک کہ ان حقائق نے مغربی دنیا کی بھی آنکھیں کھول دی ہیں۔ موجود انتظامیہ کے چارج لینے سے قبل پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کی صرف 28کتابیں سال 2007 میں شائع ہوئیں جبکہ سال 2012 میں یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے حوصلہ افزائی کئے جانے کے باعث 106 کتب شائع ہوئیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے سابق ادوار میں تحقیق کو کبھی بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ حقدار تھی۔ موجودہ انتظامیہ سے قبل تحقیق کے لئے سالانہ صرف 40 لاکھ روپے مختص تھے جبکہ موجودہ انتظامیہ نے یہ رقم بڑھا کر دس کروڑ روپے سالانہ کر دی ہے کیونکہ موجودہ انتظامیہ سمجھتی ہے کہ مسئلہ فنڈز کی عدم دستیابی کا نہیں ہوتا بلکہ حقیقی مسئلہ ترجیحات کا ہوتا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ نے طلباء و طالبات کو بہترین تعلیم کی فراہمی کے لئے اساتذہ کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ کیا ہے ۔ یونیورسٹی میں ریگولر پی ایچ ڈی اساتذہ کی تعداد 29 فیصد تھی جو کہ اب بڑھ کر 40 فیصد ہو چکی ہے۔ یونیورسٹی اساتذہ کی بڑی تعداد کو بین الاقوامی کانفرنسوںمیں پنجاب یونیورسٹی کا نام روشن کرنے اور علم کی نئی جہتوں سے آراستہ ہونے کے لئے ان کی شرکت کو یقینی بنایا گیا ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ انتظامی افسران کی بھی ٹریننگ کرائی جا رہی ہے جس سے ان میں انتظامی امور سے نبٹنے کی صلاحیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی …ملک کی قدیم ترین اور عظیم الشان مادر علمی
Feb 21, 2014