لاہور (مبشر حسن/ دی نیشن رپورٹ) جماعت اسلامی کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں تقسیم کا شکار ہیں۔ جماعتوں کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے کا یہ عمل تقریباً تمام جماعتوں میں ہوا ہے جس کی وجہ پارٹی میں اندرونی طور پر اختیارات کا ارتکاز اور ایک گروہکی اجارہ داری کی وجہ سے دوسرے ارکان کی ناراضگی کہی جاتی ہے۔ حال ہی میں اے این پی بھی تقسیم ہو گئی اور بیگم نسیم ولی خان نے اے این پی (ولی) کے نام سے اپنی نئی جماعت بنا لی۔ ان کے کئی سالوں سے پارٹی سربراہ اسفند یار سے اختلافات چلے آ رہے تھے۔ پیر صدر الدین کی فنکشنل لیگ بھی انہی مراحل سے گزر رہی ہے۔ جے یو پی (نورانی) میں بھی صاحبزادہ عبدالخیر اور قاری زوار بہادر نے اپنے الگ دھڑے بنا لئے ہیں۔ قبل ازیں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ، جمعیت علماء اسلام، ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں میں تقسیم کا عمل ہو چکا ہے۔ تاہم جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس میں گروہ بندی دکھائی نہیں دی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ سب جماعتیں جمہوری طرز اختیار کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے داخلی انتخابات کرائیں اور پارٹی کی قیادت تبدیل ہوتی رہے تو جماعتوں میں تقسیم کا یہ عمل رک سکتا ہے۔ ان جماعتوں کو اپنے اندر بھی جمہوری اقدار کو اپنانا ہو گا۔