علّامہ اقبال کے خلاف کُفر کے فتوے دینے والے مذہبی پیشوا ٗ اُن کے ایک ہی مِصرعے کو نمُونہ بنا کر کہ ؎
’جُدا ہو دِیں سیاست سے ٗ تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘
اُس کی آڑ میں سیاست میں جارحیت کے مظاہرے کررہے ہیں۔ پُرانے زمانے میں برہمن ٗ ربّی ٗ پادری اور مولوی حضرات راجائوں/ بادشاہوں کے مُشیر یا وزیر ہوتے تھے لیکن کئی سالوں سے ہمارے یہاں زیادہ تر مسجدوں کے خطِیب اور مدرسوں کے منتظم اُمّتِ مُسلمہ کے قائدِین کہلاتے ہیں۔ اور خلافت کے دعویدار‘‘ ہیں۔
’’مذہبی پیشوا سیاست سے دُور رہیں!‘‘
سعودی عرب کے مُفتی اعظم شیخ عبداُلعزیز الشَیخ نے مذہبی پیشوائوں کو خبردار کِیا ہے کہ وہ سیاست سے دُور رہیں کیونکہ یہ مُبہِم ہے اور اِس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ’’مُفتیٔ اعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’مذہبی پیشوا سیاست پر بات کرتے ہُوئے حقائق کی پڑتال کر لِیا کریں۔‘‘ مُفتی اعظم کے خیال کے مطابق موجودہ دَور کے مذہبی پیشوا جب سیاست پر بات کرتے ہیں تو حقائق کی پڑتال نہیں کرتے ٗ شاید اِسی لئے مختلف مسالک کے مذہبی پیشوائوں میں یک جہتی نہیں اور اگر نظریۂ ضرورت کے تحت یک جہتی ہو بھی جائے تو قائم نہیں رہتی۔ ’’مُتحدہ مجلسِ عمل میں شامل مذہبی پیشوائوں کی جماعتوں کے اکابرِین نے ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے دے رکھے تھے اور مولانا شاہ احمد نورانی کے سِوا سبھی مذہبی پیشوا ایک دوسرے کی اِقتداء میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ پاکستان کے جِن مذہبی پیشوائوں کا مسلک سعودی مسلک کے تابع ہے انہیں مُفتیٔ اعظم شیخ عبداُلعزیز الشیخ کی اپیل / مشورے پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
’’جناب وسیم سجاد لُٹ گئے!‘‘
لفظ ’’وسیم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے اور ’’سجّاد‘‘ بھی وسیم کے معنی ہیں خُوب صُورت اور حُسین اور سجّاد بہت ہی زیادہ سجدے کرنے والے کو کہتے ہیں۔ ’’سجّاد‘‘ حضرت امام زین اُلعابدینؓ کا لقب ہے۔ تو معزز قارئین و قارِیات!۔ سابق چیئرمین سینیٹ اور کئی بار قائم مقام صدرِ مملکت بھی رہے۔ جناب وسیم سجّاد سے میری نیاز مندی رہی ہے۔ وہ چیئرمین سینیٹ تھے جب وہ 26 دسمبر2003ء کو اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں میری بیٹی سائرہ کی شادی میں اُس کے لئے اور اُس کے دُلہا قاسم احمد مِرزا کے لئے تحائف لے کر تشریف لائے تھے۔ مجھے 19 فروری کو (علّامہ طاہر اُلقادری کی سالگرہ کے دِن) اسلام آباد میں جناب وسیم سجّاد کے گھر ڈاکہ زنی کی واردات کی خبر پڑھ کر بہت دُکھ ہُوا۔ 4 ڈاکو جناب وسیم سجّاد اُن کے اہلِ خانہ کو رسیوں سے باندھ کر لاکھوں روپے کی نقدی ٗ زیورات اور قیمتی سامان لُوٹ کر فرار ہو گئے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تفتیش کے لئے جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا مطالبہ کر دِیا ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد مِسٹر طاہر عالم نے ڈکیتی کو افسوس ناک قرار دیتے ہُوئے تحقیقات کا حُکم دے دِیا ہے ’’اللہ اللہ خیر صلّا‘‘۔ عام طور پر اسلام آباد میں ڈاکہ زنی کی وارداتوں پر لُٹنے والے خاندانوں کو ’’کھجّل خراب‘‘ ہونے کے سِوا کچھ نہیں مِلتا۔ 30 دسمبر 2013ء کو وزیرِاعظم کے سابق پریس سیکرٹری اور سابق پرنسپل انفارمیشن آفیسر پروفیسر محمد سلیم بیگ کے گھر سے اُن کی اہلیہ محترمہ طاہرہ سلیم کے سارے زیورات اور اہلِ خانہ جمع پُونجی لُوٹ کر فرار ہو گئے تھے۔ اسلام آباد پولیس ڈاکوئوں کا سُراغ لگانے میں ابھی تک ناکام ہے۔ پولیس کا مؤقف تھا کہ ’’ڈاکو اسلام آباد میں باہر سے آئے تھے‘‘ یعنی ’’مہمان ڈاکو‘‘ تھے۔ دیکھئے جناب وسیم سجّاد اور اُن کے اہلِ خانہ کو کیا جواب مِلتا ہے؟
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے ایک صاحب شہزادہ جمال نذیر نگران وفاقی وزیرِ مذہبی امُور تھے۔ انہوں نے وفاقی وزارتِ مذہبی امُور کی عمارت میں سالہا سال سے آویزاں مصّورِ پاکستان علّامہ اقبال اور بانیٔ پاکستان حضرت قائدِاعظم کی تصاویر اور پورٹریٹس اُتروا دیئے تھے اور یہ ’’فتویٰ‘‘ بھی دے دِیا تھا کہ ’’یہ سب اسلام کی رُوح کے منافی ہیں۔‘‘ اِس موضُوع پر ’’نوائے وقت‘‘ میں 21 مئی 2013ء کو ’’مذہبی امُور کا شہزادۂ فتُور‘‘ کے عُنوان سے میرا کالم شائع ہُوا تھا۔ مَیں تو وزارتِ مذہبی امُور کی عمارت میں کئی سال ہُوئے نہیں گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسلم لیگ (ن) کے وزیرِ مذہبی امُور سردار محمد یوسف کا ’’اسلام کی رُوح‘‘ کے بارے میں کیا عقِیدہ ہے ؟۔ انہوں نے علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کی وہ تصاویر اور پورٹریٹس وزارتِ مذہبی امُور کی عمارت میں پھر سے آویزاں کرائے یا نہیں؟ مجھے نہیں معلوم لیکن قومی اخبارات میں جنابِ یوسف کے ’’حُسنِ بیان‘‘ سے مجھے اُستاد بحر کا یہ شعر یاد آ گیا ہے ؎
’’کِشورِ حُسن میں رُتبہ ہے یہ جانی ترا
نام مشہور ہُوا ٗ یوسف ثانی ترا‘‘
فرماتے ہیں کہ ’’مُلک میں نمازوں کے اوقات میں دفاتر ٗ تجارتی و کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کو بند رکھنے کی تجویز دے دی ہے اور حکومت اِس تجویز کو آگے بڑھانے کے لئے تیار بھی ہے۔‘‘ جنابِ یوسف نے یہ نہیں بتایا کہ یہ تجویز کہاں سے آئی؟ کیا سعودی عرب سے؟ کیونکہ سعودی عرب میں ایسا ہی ہوتا ہے اور نماز پڑھنے کے لئے نماز ی اپنے اپنے دفاتر ٗ تجارتی و کاروباری مراکز اور مارکیٹوں کو بند کر کے مسجدوں کا رُخ کرتے ہیں لیکن اُن مسجدوں میں خُودکُش حملے نہیں ہوتے۔ سعودی عرب میں بادشاہت ہے اور وہاں خُودکُش یا اِس قبِیل کے دوسرے دہشت گردوں اور مختلف اور سنگین جرائم کے مُرتکب جرائم پیشہ لوگوں کے سر قلم کر دیئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ’’جمہوریت‘‘ ہے اور یہاں پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کے سر کاٹ کر اُن سے فُٹ بال کھیلنے والے دہشت گردوں سے مذاکرات کئے جاتے ہیںاور اُن کے سرپرستوں اور ’’سہولت کاروں‘‘ کی ’’تھلّے لگنے کی حد تک‘‘ خوشامدیں کی جاتی ہیں اور جب دہشت گردوں کے سرپرست اورسہولت کار حکومت سے رُوٹھ جائیں تو اُن میں سے ہر ایک کو پیغام بھجوا یا جاتا ہے کہ ؎
’’بے سبب مجھ سے رُوٹھنے والے!
کوئی صُورت تجھے منانے کی؟‘‘
وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان اِن دِنوں امریکہ کے دَورے پر ہیں۔ 19 فوری کو امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے ساتھ واشنگٹن میں مشترکہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’دہشت گردوں کے خلاف 5 نکاتی حکمتِ عملی پیش کرتے ہُوئے مجھے شرم آ رہی ہے کہ واضح پالیسی نہ ہونے کے باعث کئی کالعدم تنظیمیں نام بدل کر پاکستان میں فعال ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان کا کوئی باقاعدہ وزیرِ خارجہ ہوتا تو امریکی وزیرِ خارجہ سے مذاکرات کے لئے وہ واشنگٹن جاتا۔ مُشیرِ امُور خارجہ جناب سرتاج عزیز کو تو جنابِ وزیرِاعظم نے سینیٹ کا ٹِکٹ بھی نہیں دِیا۔ اگر ہمارے وزیر داخلہ دہشت گردی کے خلاف5 نکاتی حکمت ِ عملی پر شرم سار تھے تو بین اُلاقوامی مِیڈیا پر اپنی حکومت اور دہشت زدہ عوام کو شرمسار کرنے کے لئے واشنگٹن کیوں گئے تھے؟ شاعر نے تو پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ ؎
’’طوافِ کُوئے ملامت کو اب نہ جا اے دِل
نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اُڑا اے دِل‘‘
’’کالعدم تنظیمیں‘‘ اگر نام بدل کر پاکستان میں فعال ہیں تو پاکستان کی تمام خُفیہ ایجنسیوں کے لئے اُن تنظیموں کے ’’کردار یا بدکردار‘‘ تو جانے پہچانے ہوں گے؟ اُن سے وضعداری ٗ اخلاق کا مظاہرہ اور چشم پوشی تو ریاست سے بے وفائی بلکہ غدّاری ہے۔ پھر ؎
’’آپ بھی شرمسار ہو ٗ مجھ کو بھی شرمسار کر‘‘
کی رسم نبھانے کا کیا مقصد؟ علّامہ اقبال نے تو کسی اور موڈ میں کہا تھا کہ ؎
’’یوسف ِ مَن بہر اِیں بازار نِیست‘‘
یعنی ’’میرا یوسف اِس بازار کے لئے نہیں ہے۔‘‘ لیکن چودھری نثار علی خان ہو یا سردار محمد یوسف یا کوئی اور ’’یُوسف‘‘ جنابِ وزیرِاعظم نے کی خلوت اور جلوت میں تو بہت سے یوسف اُن کے ساتھ رہتے ہیں۔ یعنی ’’بازار ِاقتدار میں یُوسف ہی یُوسف!‘‘