پاک امریکہ اشتراک

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ پاکستان ا ور امریکہ خطے میںامن کے لئے شراکت دار ہیں۔یہ بھی خوب رہی، بھارت تو امریکہ کا گلوبل پارٹنر ہے اور پاکستان صرف علاقائی پارٹنر، یہ مہربانی بھی نہ کرتے تو ہم پہ احساں ہوتا،نائن الیون سے پہلے ہمارے خطے میں امن کو کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا، نائن الیون کے سارے ملزم عالم عرب سے تعلق رکھتے تھے مگر امریکہ نے ڈنڈا اٹھایا اور افغانستان پر چڑھائی کر دی،پھر نجانے کیاخیال آیا کہ افغان تو بے چارے لڑنے کے قابل نہیں ہیں،اس لئے انہیں لڑائی کی تربیت حاصل کرنے کی مہلت دینے کے لئے امریکی افواج نے عراق پر چڑھائی کر دی، کیوں کر دی، صرف اس وہم کی بنا پر کہ صدام حسین کے پاس ایٹمی اسلحہ موجود ہے مگر چھ سات برس کی کل کل کے بعد پتہ چلا کہ برطانوی انٹیلی جنس نے ایٹمی اسلحے والی خبر یوں ہی گھڑی تھی، محض افسانے کے طور پر، اس کے بعد امریکہ نے سوچا کہ اسامہ بن لادن نے دوران جنگ حامد میر کے ساتھ انٹرویو میںخود دعوی کیا تھا اور اسے ایک انگریزی معاصر نے شہہ سرخیوںکے ساتھ شائع کیا تھا کہ اس کے پاس ایٹمی اور کیمیاوی اسلحہ موجود ہے ا ور امریکہ اگر جارحیت سے باز نہ آیا تو اس کے خلاف یہ اسلحہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے، امریکہ کے لئے افغانستان کو تورا بورا بنانے کا یہ معقول بہانہ تھا۔
اس ساری کہانی میں کہیں پاکستان کا ذکر نہیں، صرف یہ واقعہ ہوا کہ وار آن ٹیررشروع کرتے ہوئے امریکی صدر بش نے ایک لکیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو ملک اس لکیر کے پار ہے، وہ ہمارا دشمن ہے، پرویز مشرف سے بھی یہ سوال پوچھا گیا اور یہ دھمکی دے کر پوچھا گیا کہ ہمارا ساتھ نہ دینے کی سزا کے طور پر پتھر کے دور میں دھکیل دیئے جائو گے، پرویز مشرف کا واقعی پتہ پانی ہو گیا ہو گا، وہ مشورہ بھی کرتا تو کس سے، اس نے امریکہ کا حلیف بننے کا اعلان کر دیا،تو دوستو، یہ جو کچھ پاکستان پر گز رہی ہے ، وہ مشرف کی ایک چھوٹی سی ہاں کی سزا ہے مگر دنیا میں ڈیڑھ دو سو حکمران اور بھی تھے جنہوں نے یہی ہاں کی تھی، ان کے ساتھ وہ نہیں ہوا جو پاکستان کے ساتھ ہوا، اور اللہ نہ کرے یہی کچھ سب کے ساتھ ہو جو پاکستان کے ساتھ ہو رہا ہے۔نائن الیون کے ساتھ پاکستان کا دور پار کا تعلق نہ تھا مگر وار آن ٹیرر لڑنے کا سارا بوجھ ہمارے کاندھوں پر لاد دیا گیا، بھارت، ایران، چین ، وسط ایشیا کے نصف درجن ملک بھی افغانستان کی سرحد پر واقع تھے، ان سے کسی نے تعرض نہیں کیا، امریکہ کے مخالفین نے امریکہ کو بھی معاف کر دیا، بھولے سے بھی دوبارہ کوئی نائن الیون نہیں کیا مگرا س کے حامیوں کی وہ درگت بنائی کہ خدا کی پناہ۔ ساٹھ ہزار جانیں، یہ انسان تھے، مرد ، عورتیں اور خواتین ، جوان اور بوڑھے، کربلا کا منظر دیکھنے میں آیا۔
آج اوبامہ نے بھی کہا ہے کہ دہشت گردی پیدا کرنے والے عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ہے، نائن الیون کے فوری بعد گرائونڈ زیرو پر ایک تقریب میں نیو یارک کے میئر جولیانی کو ایک سعودی شہزادے نے بڑی رقم کا امدادی چیک پیش کیا اور ساتھ ہی کہا کہ دہشت گردی کے اسباب پر قابو پانا ضروی ہے، میئر جولیانی نے کروڑوں کا امدادی چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
مشرف کو ہم نے کوسا کہ اس نے ملک کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل دیا، وہ امریکی پٹھو بن گیا، اس نے امریکی جنگ کو پاکستان کی جنگ بنا کے رکھ دیا۔
مشرف کے بعد زرداری آیا ، اب نواز شریف، ان میں سے کسی نے امریکہ سے نہیں کہا کہ بھائی صاحب سلام،اپنی جنگ خود لڑو۔ڈرون حملے ہماری سرزمین پر نہ کرو۔ہم باز آئے اس محبت سے جس میں ہلاکت ہی ہلاکت ہے۔وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی پہلے ہی دورے پر امریکہ گئے تو انہوںنے کہا کہ یہ جنگ پاکستان کی ہے، ہماری ہے، میری ہے، میری قائد محترمہ بے نظیر بھٹو کو اس میں شہید کیا گیا۔آج نواز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کا ہر جگہ پیچھا کریں گے تو کہاں گئی امریکی جنگ، کیوںکوستے رہے مشرف کو اور قوم کو اس کی سلامتی کے سوال پر برسوں تک کیوں تقسیم کئے رکھا۔کیوں کہا کہ امریکی فوج کی معاونت میں کوئی پاکستانی فوج جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تواس کو شہید نہیںمانتے، کیوں کہا کہ امریکی ڈرون سے کتا بھی مر جائے تو اس کو شہید مانتے ہیں۔آج یہ جنگ ہر ایک کے گلے تک پہنچ گئی ہے اور سبھی کو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا ہے،لاہور میں ایک فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ وزیر اعظم نے دیکھی، ایسی ہی پریڈ انہوںنے کوئٹہ میں دیکھی اور کہہ اٹھے کہ اب کوئی دہشت گرد بچنا نہیں چاہیے۔اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ دہشت گرد ہمارے بچے ہیں۔اور کوئی یہ بھی نہیں کہتا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کے ذریعے امن قائم ہونا چاہئے۔مذاکراتی کمیٹیاں اپنی موت مر گئیں۔کیونکہ دہشت گرد خون کرنے پر تلے بیٹھے تھے اور وہ گلی گلی، شہر شہر خون کی ہولی کھیل رہے ہیں، کہیں اسکول میں بچوں کا خون کرتے ہیں ، کہیں خدا کے گھر میںنمازیوں کا ، کہیں تھانے میںپولیس والوں کا، کس کا نہیں کرتے۔ فوج سے ان کی لڑائی تو ہر لمحے جاری ہے۔
امریکہ سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان اس کا شراکت دار ہے تو افغانستاں کی حیثیت کیا ہے، کیا اس کا کام یہ ہے ک وہ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں مہیا کرے، بھارتی فوج ان کو خون خرابے کی ٹریننگ دے، تو ہو گئی شراکت داری ۔افغانستان اس وقت آزاد ملک نہیں ، خود مختار نہیں ہے، وہاں نیٹو اور امریکی  افواج موجود ہیں۔دسمبر دو ہزار چودہ میںان افواج کا انخلا عمل میں آ جانا تھا، میںنے ایسی کوئی خبر نہیں پڑھی کہ عالمی فوجیں یہاں سے رخصت ہو گئی ہوں اور اگر یہ افواج وہیں موجود ہیں تو امریکہ کو بتانا چاہئے کہ ان کا دہشت گردوں سے اشتراک کیوں ہے اور کس لئے ہے، وہ سرحد پار دہشت گردوں کو ٹھکانے کیوںنہیں لگاتا۔
رسم دوست داری اور رسم شراکت داری ہم معنی کیوں ہیں۔

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...