لاہور (ندیم بسرا) وفاقی حکومت کی طرف سے بجلی بحران کو کم کرنے کیلئے مارچ کے آخر تک 200 ملین کیوبک فٹ ایل این جی پاکستان میں آجائے گی جس سے 11 سو میگاواٹ کے قریب بجلی گیس سے پیدا کی جائے گی۔ اس سے فرنس آئل پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی آئے گی۔ حکومت نے بحران کو کم کرنے کیلئے پانی کے منصوبوں پر توجہ بالکل ختم کردی ہے۔ ملک کے اندر 50 ہزار میگاواٹ سے زائد ہائیڈل بجلی بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ واپڈا کے جاری اور فزیبلیٹی مکمل ہونے والے منصوبوں کو شروع کیا جائے تو آج بھی دو روپے سے 3 روپے فی یونٹ تک بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مگر وفاقی حکومت ملک کے اندر وسائل کو بروئے کار لانے کی بجائے غیر ملکی وسائل پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ وفاقی حکومت نے ایل این جی کو قطر سے امپورٹ کرنے کی تمام منصوبہ بندی مکمل کرلی ہے۔ حکومت کی یہی سوچ ہے کہ شارٹ ٹرم منصوبوں میں ایل این جی کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کی جائے۔ کیپکو کو یہ گیس دی جائے گی جس سے یقینی طور پر فرنس آئل سے پیدا ہونے والی بجلی اور اس پر بھاری بھرکم اخراجات کم ہونگے اور بجلی سسٹم میں آنے سے صارفین کو لوڈشیڈنگ میں ریلیف ملے گی۔ مگر ایل این جی جیسے ہی ملک میں آئے گی تو اس سے پیدا ہونے والی بجلی کا بڑا شیئر انڈسٹری کو ملے گا، گھریلو صارفین کو پھر لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑے گا جبکہ منصوبے کے تحت پنجاب کے گھریلو صارفین کو اس سے پیدا ہونے والی بجلی دی جانی ہے۔ مگر طاقتور مافیا نے پہلے ہی این ایل جی سے حاصل ہونے والی بجلی کی بندربانٹ کا منصوبہ بنالیا ہے۔ حکومت کا یہ بھی ارادہ ہے کہ این ایل جی کی امپورٹ میں مرحلہ وار اضافہ کیا جائے اور اس کو 200 ملین کیوبک فٹ سے بڑھا کر 500 ملین کیوبک فٹ تک کردیا جائے۔ رواں برس بجلی کی لوڈشیڈنگ 12 سے 18 گھنٹے تک جا پہنچی جبکہ گیس کا بحران سردیوں میں 12 گھنٹے تک رہا جبکہ لاہور کے بعض علاقوں میں دو ماہ تک مسلسل گیس بھی بند رہی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس وقت پانی سے جاری منصوبوں سے اگلے 3 برس تک کوئی بھی بجلی پیدا نہیں ہوگی جبکہ 2015 کے نومبر تک سسٹم سے مزید بجلی کی کمی واقع ہوجائے گی کیونکہ 4 کے قریب آئی پی پیز بند ہوجائیں گی جس سے بجلی کے بریک ڈاﺅن بڑھ سکتے ہیں۔