آج اتوار کو حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس ہوتا ہے یہ باقاعدگی کئی برسوں پر محیط ہے۔ حلقے کے سیکرٹری معروف ادیب امجد طفیل نے حلقہ ارباب ذوق کو ذوق و شوق کے کئی راستوں تک وسیع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب حلقے کے کئی خصوصی اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ انتظار حسین ہمارے عہد کے عہد ساز افسانہ نگار تھے۔ وہ بھارت میں زیادہ مشہور ہوئے اور اہم ہوئے۔ ایک خاص اجلاس ان کی یاد میں ہوا جس میں سو سے ذرا کم لوگ شریک ہوئے۔ ان میں سے کئی انتظار حسین کو جانتے ہی نہ ہوں گے۔ جو جانتے ہوں گے انہوں نے انتظار حسین کا کوئی افسانہ پورا نہیں پڑھا ہو گا۔ امجد طفیل نے حلقے کو اس صورتحال میں پہنچا دیا ہے مقبولیت کے ریکارڈ بنا دئیے ہیں۔ ڈاکٹر غافر شہزاد کے زمانے میں حلقہ اپنی مقبولیت کے ایک خاص معیار کو پہنچا تھا۔ ویسے انہیں پڑھنا اتنا آسان بھی نہ تھا۔ وہ بہت باوقار بلکہ کم آمیز تھے۔ جلدی سے بے تکلف نہ ہوتے تھے۔ کسی کے ساتھ فری تو بہت کم کم ہوتے تھے۔ انہوں نے لکھا تو اپنی مرضی سے لکھا۔ اپنی مرضی سے زندگی گزاری۔ میں نے ان کے لئے بہت مختصر کہا کہ ایسے شخص کا کچھ انتظار کیا جاتا ہے ورنہ یہ لوگ جلدی جلدی پیدا نہیں ہوتے۔ اس پر الطاف احمد قریشی نے کوئی بات اپنی مونچھوں کے اندر سے باہر پھینکی۔ میں نے کہا کہ الطاف دوست ہے مگر انتظار کے معانی نہیں جانتا۔ ایک بات اور میں نے کہی کہ وہ اتنے بڑے ادیب تھے اور انہوں نے کالم لکھے جبکہ کالم نگاری کو دوسرے نمبر کی تحریر سمجھا جاتا ہے۔ مگر میرا خیال ایسا نہیں ہے یہ نہیں کہ میں بھی کالم لکھتا ہوں۔ میں تو کالم نگاری کو سالم نگاری سمجھتا ہوں۔ یہ بڑے بڑے ادیبوں کا شوق اور شغل رہا ہے۔
کشور ناہید نے بھی ایک اچھا کالم انتظار حسین کے لئے لکھا ہے۔ مگر اس کا عنوان اچھا نہیں ہے۔ ’’کاش میں بھی انتظار حسین کی طرح لکھ سکتی‘‘ وہ انسانی اور نسوانی حقوق کے لئے بولنے والی پہلی خواتین میں سے ہے۔ وہ جس ادارے میں گئی اسے واقعی ایک ادارہ بنا دیا۔ مجھے اس کے زمانے کے سرکاری ادبی رسالے ’’ماہ نو‘‘ کے کئی شمارے یاد آتے ہیں۔ وہ سرکار دربار کے ناقدین میں شمار ہوتی ہے مگر اس کی ملازمت کو کبھی خطرہ نہیں ہوا تھا۔ اب ’’ماہ نو‘‘ مریم صائمہ اور سلیم صاحب نے بہت آگے بڑھا دیا ہے۔ پہلے کشور ناہید کالم نگاروں پر بہت برہم ہوتی تھی۔ پھر اس نے خود کالم لکھنا شروع کئے اور اچھے کالم بھی لکھے۔ ان کالموں میں انتظار حسین کی طرح ادبی کیفیت غالب رہی۔ ان میں سے ایک انتظار کے لئے اس کا کالم ہے۔
حلقہ ارباب ذوق کا یہ اجلاس بہت بھرپور تھا۔ میرے خیال میں اس کی کامیابی کی ایک وجہ نامور اور ممتاز دانشور ادیب محقق اور استاد محترم ڈاکٹر پروفیسر خواجہ محمد زکریا کی صدارت اور صدارتی خطبہ تھا۔
برادرم منصورالرحمن آفریدی کی گفتگو سے پہلے برادرم عالم صاحب نے نعت پڑھی جس کا پہلا شعر دل میں اتر گیا۔ بظاہر آپؐ ہماری طرح ہیں مگر ہم ان کی طرح نہیں ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے کہ ہم نے آپؐ کی سیرت کو اپنا طرز زندگی نہیں بنایا۔ آپؐ نے جس طرح زندگی بسر کی ہم نے اس طرح زندگی گزارنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ آفریدی صاحب نے کہا کہ جب ہم علم کے پاسبان تھے تو ہم بہتر تھے۔ ہم سپر پاور تھے۔ علم کی وجہ سے یورپ اور امریکہ بہت آگے ہیں۔ دنیا کے علوم کی بھی حضورؐ کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ آپؐ نے جنگ بدر کے قیدیوں کے لئے کہا کہ وہ ایک آدمی کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو ان کے لئے آزادی ہے۔ کافروں نے قرآن تو نہیں پڑھانا تھا۔ دنیاوی علم ہی سکھانا تھا۔ دنیا کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
مسعود کھدر پوش ایک زندہ اور بہت اہم بیوروکریٹ تھے۔ انہوں نے پنجابی زبان و ادب کے فروغ اور مقبولیت کے لئے بہت معرکہ آرائی کی۔ اب اس راستے کو پوری طرح آباد رکھنے والی ان کی صاحبزادی شیریں مسعود کھدر پوش ہیں۔ مختلف قسم کی تقاریب، پنجابی لٹریری ایوارڈز، پنجابی مشاعرے کرائے اور بھرپور کوشش کی کہ یہ قومی مشاعرہ بن جائے۔ شیریں جی نے اپنے مشاعرے کو نام ہی قومی پنجابی مشاعرہ کا دیا۔ ہر اجلاس حتیٰ کہ پنجابی مشاعرہ بھی اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوا۔ آج کل اپنے سفید خوبصورت اور نرم بالوں بلکہ زلفوں کے ساتھ شیریں مسعود بہت گریس فل لگتی ہیں۔ یہ میں نے سفید بالوں کے لئے تکلف میں کہا ہے ورنہ وہ آج بھی خوبصورت اور سمارٹ ہیں گریس فل اور باوقار۔
امریکہ میں صدارتی مرکز وائٹ ہائوس کے سامنے ایک بڑھیا ایک کٹیا لگائے احتجاجاً کئی برسوں سے مرتے دم تک بیٹھی رہی۔ اس کی عمر 80برس تھی۔ وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے موجود رہی۔ وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی کہیں نہ گئی ایسی استقامت اور استقلال کے لئے دوسری کوئی مثال نہیں ہے۔ کئی طوفان آئے۔ آندھیاں چلیں۔ بارشیں ہوئیں مگر کچھ بھی اس کے لئے مشکل نہ بنا۔ وائٹ ہائوس نے کئی بار کوشش کی مگر وہ ڈٹ گئی۔ عدالت نے ہمیشہ اس کے حق میں فیصلہ دیا۔ کیا پاکستانی سپریم کورٹ ایسا فیصلہ دے سکتی ہے۔ اس سے پہلے ہی پولیس اسے اٹھا کے کہیں ویرانے میں پھینک دیتی اور اسے پھینٹی بھی لگاتی۔
مگر امریکی بڑھیا آرام سے وائٹ ہائوس والوں کے سینے پر مونگ دلتی رہی۔ گزشتہ دنوں امریکہ میں برفانی طوفان میں وہ بڑھیا مر گئی۔ میرے خیال میں اس کی قبر بھی یہیں بنائی جاتی تاکہ وہ انسانی حقوق کے علمبردار امریکہ کو یاد دلاتی رہتی کہ اتنا ظلم مناسب نہیں۔ مگر ایک بات سوچنے کی ہے کہ اتنی بڑی قربانی کے باوجود نہ امریکہ کو احساس ہوا نہ اسرائیل کو شرم آئی۔ میں اس عظیم اور بہادر خاتون کے مرنے پر تعزیت کرتا ہوں۔ اسے سلام کرتا ہوں۔
میکسیکو (امریکہ) کے ائرپورٹ پر ایک سکھ سردار پگڑی نہ اتارنے پر طیارے سے اتار دیا گیا۔ یہ کردار کی استقامت کی بات ہے۔ ایک تو یہ کہ سکھ کہیں بھی پگڑی کے بغیر نہیں ہوتے پگڑی ان کی مذہبی پہچان بن گئی ہے۔ سکیورٹی اور تلاشی کے لئے اسے پگڑی اتارنے کو کہا گیا ہو گا۔ اس نے طیارے سے اتر جانا قبول کر لیا مگر پگڑی اتارنا قبول نہ کیا۔ ایسے واقعات سکھوں کے ساتھ کئی موقعوں پر ہوتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی کئی دفعہ ایسا ہوا مگر میں ڈٹ گیا۔ صدر جنرل مشرف کے زمانے میں ان کے ساتھ صحافیوں اور کالم نگاروں کی ایک میٹنگ میں مجھے بھی بلایا گیا۔ ایک کرنل صاحب نے متکبرانہ انداز میں تلاشی لیتے ہوئے کئی لوگوں سے بدتمیزی کی۔ مجھے پگڑی اتارنے کے لئے کہا گیا۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ کرنل صاحب سے میں نے کہا کہ میں پگڑی میں بم چھپا کے نہیں جائوں گا۔ میں خودکش حملے کے خلاف ہوں اور میں خود کو کم از کم صدر مشرف سے زیادہ قیمتی اور اہم سمجھتا ہوں۔ میں ایسا کیوں کروں گا۔ صدر نے مجھے ملاقات کے لئے بلایا ہے۔ میں ان سے ملنے کے لئے بے قرار بالکل نہیں ہوں۔ مگر آپ لوگ مہمانوں کی عزت کرنا سیکھیں۔ اقتدار میں آ کے اقدار کو بھلانا اچھا نہیں ہے۔