چندی گڑھ+ روہتک (نیوز ڈیسک) بھارت ریاست ہریانہ میں کوٹہ مقرر کرانے کیلئے جٹ برادری کا پرتشدد احتجاج بدترین نسلی فسادات میں بدل گیا۔ ہفتہ کے روز کیتھل اور جھجر میں فوج کی فائرنگ سے 7 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے۔ اس طرح دو روز میں مرنے والوں کی تعداد 10 تک جا پہنچی۔ روہتک، حصار، بھیوانی اور مختلف علاقوں میں دوسرے روز کرفیو کے باوجود ہزاروں جٹ نوجوان، بوڑھے، عورتیں ہاتھوں میں اسلحہ، ڈنڈے، کلہاڑیاں اٹھائے غیرجٹ برادری کی دکانوں، گھروں اور دیگر املاک پر حملے کرتے رہے، کئی جگہ دونوں اطراف سے گھمسان کی لڑائی دیکھنے میں آئی۔ مظاہرین نے سڑکوں، ریلوے ٹریکس اور اہم راستوں پر دھرنے دیئے رکھے، گلیوں میں سینکڑوں بلوائیوں کا راج رہا۔ ہفتہ کے روز مشتعل جٹ مظاہرین نے ریاستی وزیر خزانہ کیپٹن ابھمینیو سندھو کے گھر کو دوبارہ آگ لگا دی جبکہ وزیر زراعت اوپی دھنکر اور بی جے پی کے رہنما آنند ساگر کے گھروں پر حملے کر کے توڑ پھوڑ کی۔ مظاہرین نے ہفتہ کے روز سرکٹ ہا¶س، سردار پولیس سٹیشن، پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہا¶س ویٹا ملک پلانٹ، درجنوں دکانوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ہریانہ کے 6 اضلاع میں امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال پر قابو پانے میں بھارتی فوج بھی ناکام نظر آئی۔ ہزاروں مظاہرین نے 3 روز سے ان علاقوں کے راستے سڑکیں کاٹ کر انکا بھارت بھر سے رابطہ معطل کر رکھا ہے جس کی وجہ سے 5 ہزار سے زائد فوجی اور نیم فوجی اہلکاروں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے روہتک، جھجر، پانی پت، سونی پت، جنڈ، بھیوانی اور دیگر اضلاع میں اتارنا پڑا۔ فوج کے سپاہیوں نے بی ایس ایف اہلکاروں سے ملکر ان شہروں میں فلیگ مارچ شروع کردیا جبکہ جٹ برادری کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جو ناکام رہے۔ نیشنل جٹ آرگنائزیشن کے صدریش پال ملک نے واضح کیا کہ جٹ لالی پاپ سے نہیں بہلیں گے، جب تک انکے مطالبات پورے نہیں ہوتے احتجاج جاری رہیگا۔ ادھر ہریانہ کی صورتحال میں سب سے خطرناک بات مختلف شہروں میں جٹوں اور غیر جاٹوں کے درمیان پھوٹ پڑنے والے نسلی فسادات ہیں جن میں املاک جلائی گئیں۔ روہتک، جھجر، پانی پت، سونی پت اور دیگر شہروں میں 150 کے لگ بھگ افراد زخمی ہوئے، ان میں 20 کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے جبکہ مظاہرین نے کئی کلومیٹر ریلوے ٹریک اکھاڑ دیا اور سڑکیں کھود ڈالیں۔ ٹرینوں کی آمدورفت، انٹرنیٹ، موبائل فون سروس ایک ہفتے سے معطل ہے۔ اب تک بھارتی محکمہ ریلوے پنجاب اور مقبوضہ کشمیر کی طرف جانیوالی 800 سے زائد مسافر ٹرینیں منسوخ کرچکا ہے جس سے ریلوے کو کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ریاستی وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ہفتہ کے روز پھر مظاہرین سے میڈیا کے ذریعے اپیل کی کہ وہ احتجاج ختم کردیں اور املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔ دوسری طرف حسار میں جٹ اور غیر جٹ برادریوں میں بدترین جھڑپوں کی اطلاعات ملی ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق مشتعل افراد نے فوج کے 11 ٹرک اغوا کر لئے تاہم بھارتی فوج نے اسکی تصدیق نہیں کی۔ گوہانہ شہر میں درجنوں پٹرول پمپوں، دکانوں اور ہریانہ روڈویز کی سرکاری بسوں کو مشتعل افراد نے جلا ڈالا۔ ہانسی شہر میں سابق ریاستی وزیر اتار سنگھ سیانی کے بھائی کو نامعلوم افراد نے گولی مار دی۔ دریں اثنا ہریانہ میں جاری بدامنی کے اثرات اسکی ملحقہ ریاست اور دارالحکومت نئی دہلی پر بھی دکھائی دینے لگے ہیں۔ دہلی سے ہریانہ جانے والے راستے مکمل بند اور ہریانہ سے پانی کی سپلائی رکنے کے بعد نئی دہلی میں پانی کی شدید قلت پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔