یہ محض اتفاق ہے کہ 19 فروری کو علاّمہ طاہر اُلقادری کی 65 ویں سالگرہ تھی اور اُسی دِن وزیراعظم نواز شریف اپنی بیٹی مریم نواز اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو ساتھ لے کر اسلام آباد میں اذان خان شہید ماڈل سکول کے بچّوں (طلبہ) سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے۔ سکول کے گیٹ پر وزیر مملکت طارق فضل چودھری، اسلام آباد کے میئر شیخ انصر عزیز اور پرنسپل محمد اقبال نے اُن کا استقبال کِیا۔ سکول کے بچوں نے وزیراعظم، مریم نواز اور طارق فضل چودھری کی تصاویر اُٹھا رکھّی تھیں۔ کسی بچے کے ہاتھ میں جنابِ اسحاق ڈار کی تصویر نہیں تھی۔ جنابِ ڈار نے کسی سے تو پوچھا ہوگا کہ....
”کوئی بچّہ، میری تھامے ہُوئے تصویر نہیں؟“
مختلف نیوز چینلوں پر وزیراعظم، مریم نواز، طارق چودھری اور ٹاواں ٹاواں جنابِ ڈار کو بھی مسکراتے دِکھایا گیا لیکن نیوز چینلوں پر اور اخبارات میں یہی بتایا گیا کہ ”وزیراعظم اذان خان شہید ماڈل سکول میں بچّوں سے گُھل مِل گئے“۔ کوئی بڑی شخصیت عام لوگوں سے پیار، محبت اور بے تکلفی سے مِلے تو ایسا کہا جاتا ہے۔ مریم نواز نے تین بچّوں سے اُن کے والد کا پیشہ پوچھا۔ ایک نے بتایا کہ ”میرے والد مالی ہیں“ ۔ دوسرے نے کہا ”ڈرائیور“ اور تیسرے نے ”الیکٹریشن“ بتایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ”طارق فضل چودھری بھی اِسی ماڈل سکول کے طالبعلم رہے ہیں۔ یہ آج وزیر ہیں“۔ اِس پر چودھری صاحب کا چہرہ کِھل گیا۔
وزیراعظم نے بچوں سے کہا کہ ”آپ بھی دِل لگا کر پڑھیں، آگے چل کر آپ میں سے بھی کوئی صدرِ پاکستان اور کوئی وزیراعظم بن کر پاکستان کا نام روشن کرسکتا ہے“۔ ٹیلی ویژن کے ناظرین حیران ہو رہے ہونگے کہ کسی مالی، ڈرائیور، اور الیکٹریشن کا بیٹا پڑھ لِکھ کر صدرِ پاکستان اور وزیراعظم کیسے بن سکتا ہے؟ جناب آصف زرداری کو زیادہ پڑھنے لِکھنے کی ضرورت نہیں پڑی، نان گریجوایٹ ہونے کے باوجود صدرِ پاکستان ”منتخب“ ہو گئے تھے۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کے لئے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، کسی عام پیشہ ور کا بیٹا اتنی رقم کہاں سے لائے گا؟ پھر اُسے صدرِ پاکستان اور وزیراعظم بننے کا جھانسا کیوں دِیا جائے؟
وزیراعظم نے بچوں کی معلوماتِ عامہ کا امتحان لِیا ۔ "A.B.C.D" سُنی۔ دُنیا کے بّرِاعظموں کے نام پوچھے اور سمندروں کے بھی لیکن، مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے قائداعظمؒ کی کُرسی پر رونق افروز وزیراعظم نے کسی بچّے سے نہیں پوچھا کہ ”بانی¿ پاکستان کا نام کیا ہے؟ اور اُن کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات کِیا ہے؟“ علاّمہ اقبالؒ کشمیری تھے اور وزیرِاعظم نواز شریف بھی کشمیری، اُنہوں نے کسی بچے سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ ”علاّمہ اقبالؒ کو مصورِ پاکستان کیوں کہا جاتا ہے؟“ وزیراعظم نے تحریکِ پاکستان میں قائدِاعظمؒ کے شانہ بشانہ جدوجہد کرنے والی اُن کی ہمشیرہ مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے بارے میں کسی بچے سے معلوماتِ عامہ کا امتحان کیوں نہیں لِیا؟ ماڈل سکول کی تقریب میں ”شاعرِ پاکستان“ حفیظ جالندھری کا تخلیق کردہ ”قومی ترانہ“ بھی بجایا اور سُنایا گیا تھا۔ وزیراعظم نے کسی بچے سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ ”قومی ترانہ کے خالق کا نام کیا ہے؟
میاں نواز شریف کی وزارتِ عُظمیٰ کے تیسرے دَور میں اُن کے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے مدارس کے وکیلِ صفائی کی حیثیت سے قوم کو بتا دِیا ہے کہ ”90 فی صد سے زیادہ مدارس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے“۔ کیا وزیر داخلہ تنظیم وفاق اُلمدارس کا ”مِنّت ترلا“ کر کے اُن سے مدارس میں ”مطالعہ¿ پاکستان کا مضمون“ پڑھانے کی تجویز منوا سکتے ہیں؟ اذان خان ماڈل سکول قِسم کے سکول تو حکومت کے اپنے دائرہ¿ اختیار میں ہے۔ ہمارا قومی ترانہ ایک لفظ ”کا“ کے سِوا، فارسی زبان میں ہے۔ وزیراعظم نے سکول کے پرنسپل محمد اقبال سے قومی ترانے کا اردو یا پنجابی ترجمہ کرنے کو کیوں نہیں کہا۔ وزیراعظم نے بچوں سے بہت جلد لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کِیا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیراعظم کسی بچے سے 115 سال پہلے لِکھی گئی علاّمہ اقبالؒ کی نظم ”بچّے کی دُعا “ سُنانے کی فرمائش کرتے، جِس کے دو شعر ہیں....
” لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری
زندگی شمع کی صُورت ہو خُدایا میری
دُور دُنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے“
علاّمہ اقبال نے بچوں کے لئے اپنی ایک نظم ”ہمدردی“ میں ایک جُگنو کی طرف سے اندھیری رات میں ایک درخت کی شاخ پر بیٹھے اداس بُلبل کو اُس کے گھونسلے تک لے جانے کی کہانی بیان کی ہے۔ جُگنو نے بُلبل کو تسلّی دیتے ہُوئے کہا کہ....
” کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
مَیں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دِیا بنایا“
اگرچہ مُلک میں لوڈشیڈنگ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے لیکن وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی 2018ءتک لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید دیتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی اپنی تقریروں میں یہ مِصرع بھی گاتے ہیں کہ....
”جُگنوﺅں کو راستہ تو یاد ہونا چاہیے!“
9 فروری 2015ءکو ”نوائے وقت“ میں میرے کالم کا عنوان تھا ”خادمِ علیٰ کی جگنو پال سکیم“ مَیں نے تجویز پیش کی تھی کہ ”اگرچہ "Firefly Energy" ( جگنوﺅں سے توانائی / روشنی ) "Solar Energy" (شمسی توانائی/ روشنی) کا مقابلہ نہیں کرسکتی لیکن خادمِ اعلیٰ پنجاب ”جُگنو پال سکیم“ شروع کریں اور جگنوﺅں سے توانائی/ روشنی حاصل کر کے کم از کم پنجاب کے کچے گھروں اور جھونپڑوں کے مکینوں اور اُن کے گلی محلّوں کو تو روشنی سے معمور کردیں“۔ خادمِ اعلیٰ چونکہ دیگر اہم کاموں میں مصروف ہیں یا ممکن ہے کہ اُنہوں نے خواجہ محمد آصف اور عابد شیر علی کے کاروبارِ لوڈشیڈنگ میں مداخلت کرنا مناسب نہ سمجھا ہو لیکن جنابِ وزیراعظم کو ”جُگنو پال سکیم“ پر عملدرآمد سے کون روک سکتا ہے؟
18 فروری کو قومی اخبارات میں سینیٹر راحیلہ مگسی کی چیئرپرسن شِپ میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کے اجلاس میں بتایا گیا کہ ”پاکستان کی 20 کروڑ آبادی میں سے 65 فی صد (13 کروڑ) نوجوان ہیں اور اُن میں سے 8 کروڑ بے روزگار اور حکومت انہیں نوکریاں نہیں دے سکتی“۔ 19 فروری کو اگر اُن 8 کروڑ نوجوانوں نے ٹیلی ویژن پر اذان خان ماڈل سکول میں وزیراعظم کے بچوں سے ”گُھل مِلنے“ کے مناظر دیکھے ہُوں گے تو اُن میں سے کچھ تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہُوں گے کہ ”ہمارے وزیراعظم ہمیں اپنے ساتھ گُھل مِلنے کا موقع کب دیں گے؟ اِس طرح کے محروم لوگوں کی طرف سے شاعر نے کہا تھا....
” چار باتیں بھی نہ کِیں، کبھی گُھل مِل کے
انہی باتوں کی شکایت ہے، شکایت کیا ہے؟“
غُربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے 60 فی صد لوگ جو بے شمار مسائل کے غم سے گُھل گُھل کر زندگی بسر کر رہے ہیں ، وہ کیا سوچتے ہوں گے؟ ”پہلوانِ سُخن“ اُستاد ناسخ سیفی نے کہا تھا....
” مر گیا گُھل گُھل کے ناسخ، آدمی کیا دیکھئے؟
لے گئے آخر مُلک، اُس کا جنازہ دوش پر“