اسلام آباد (وقائع نگار+ نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے امور اور فوجی عدالتوں کے معاملہ پر پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیا جائے جبکہ مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے بھی ایوان بالا میں اس معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سینٹ کو نظرانداز نہ کیا جائے، وزیر قانون زاہد حامد نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت سینٹ کے پارلیمانی لیڈرز کو بھی اس حوالے سے اعتماد میں لے گی۔ سینیٹر مظفر شاہ نے کہا سپیکر قومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں کے معاملے پر صرف قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لینے کے لئے اجلاس کئے ہیں حالانکہ آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت قومی اسمبلی اور سینٹ دونوں ایوانوں کو قومی سلامتی کے امور میں باہمی مشاورت کا عمل جاری رکھنا لازمی ہے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ حکومت کے لئے سینٹ کو بھی اعتماد میں لینا اتنا ہی لازمی ہے جتنا قومی اسمبلی کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ مشاہد سید نے کہا سینٹ کی منظوری کے بغیر کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ سینیٹ وفاق پاکستان کی علامت ہے، قومی اسمبلی اور سینٹ پارلیمنٹ کے دو پہیئے ہیں اگر حکومت ایک پہیہ چلائے گی تو یہ ون ویلنگ ہے جو درست نہیں ہے۔ عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ سینٹ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس حوالے سے وزیر قانون اور سینیٹر اسحاق ڈار متحرک تھے، ہم نے دونوں کے ذریعے حکومت کو پیغام بھجوایا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت دونوں ایوان برابر ہیں۔ وزیرقانون زاہد حامد نے کہا حکومت ایوان بالا کو نظر انداز نہیں کر رہی، آئینی ترامیم کے لئے قومی اسمبلی کے پارلیمانی لیڈرز کو ابتدائی طور پر اعتماد میں لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ہم سینٹ کے پارلیمانی لیڈرز کو بھی اجلاس میں مدعو کریں گے۔ چیئرمین نے کہا کہ آئینی ترمیم کا مسودہ تقسیم کیا جا چکا ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ ابھی ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔ لاہور اور حیات آباد پشاور کے خود کش حملوں میںغیرملکی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کی گئی ہے ہم اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال کریں گے نہ کسی کو پاکستان کے خلاف یہ حق دیں گے پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر میں غیر ملکی ایجنسیاں کارفرما ہیں وزیر اعظم نے مسلح افواج کو حکم دیا ہے کہ یہ عناصر جہاں کہیں بھی انہیں نشانہ بنایا جائے پاکستان نے 76مطلوب افراد کی فہرست پڑوسی ملک کو دی ہے انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنی فہرست کا تبادلہ کریں۔ 23 فروری کو کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹ کے ارکان بھی شرکت کریں گے۔ قومی اسمبلی کی کسی کمیٹی کا رسمی طور پر اعلان نہیں کیا۔ غیر رسمی مشاورت ہوئی ہے۔ یہ ایوان بھی اتنا ہی قابل احترام ہے جتنا دوسرا ایوان، ابھی غیر رسمی مشاورت چل رہی ہے، اتفاق رائے سے پیغام دیں گے۔ چیئرمین سینٹ نے حکومت کی جانب سے 6ریگولیٹری اتھارٹیز کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کرنے فیصلے کو غیر آئینی قرار دینے کی رولنگ دے دی۔انہوں نے کہا کہ حکومت 6ریگولیٹری باڈیز کو مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بگیر متعلقہ وزارتوں کے ماتحت نہیں کرسکتی۔ آئین کے تحت ریگولیٹری اتھارٹیز کو ایک وزارت سے دوسری وزارت کو مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر منتقل نہیں کیا جاسکتا، آئین کے آرٹیکل 154 کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری ضروری ہے، مشترکہ مفادات کونسل کو نظرانداز کرکے اس طرح کے پالیسی فیصلے کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے،اس سے وفاق کی اکائیوں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ میں آگاہ ہوں کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کو عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے، پارلیمنٹ کا کام ایگزیکٹو کے کاموں کی مانیٹرنگ ہے، جب صوبوں کا معاملہ ہو سینیٹ کو آئین کے تحت ایکشن لینے کا اختیار ہے۔ انہوں نے سینٹ سیکرٹریٹ کو ہدایت کی ہے کہ رولنگ کی کاپیاں وزیراعظم، وزیرقانون، وزیرانچارج برائے کابینہ ڈویژن اور وزیر برائے پارلیمانی امور کو بھیجی جائے۔ ایوان بالا نے پارا چنار کرم ایجنسی میں بم دھماکہ کی مذمت کی قرارداد اتفاق رائے سے منظور کرلی۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا پارلیمان کی نیشنل سکیورٹی کی نگرانی کے لئے کمیٹی کب بنے گی۔ سینٹ نے بچوں کو سزا دینے کی ممانعت کے لئے احکامات وضع کرنے کا بل (جسمانی سزا دینے کی ممانعت بل 2016ئ) حکومتی مخالفت کے باوجود کثرت رائے سے منظور کرلیا جبکہ ارکان پارلیمنٹ اور ججز کی دوہری شہریت اور مشیروںکی تقرری سے متعلق دستور میں مزید ترمیم کے بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے دیئے۔ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے تحریک پیش کی کہ جسمانی سزا دینے کی ممانعت بل 2016ء قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لایا جائے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان میں بچوں پر سکولوں اور گھروں میں تشدد کیا جاتا ہے، اس کی روک تھام کے لئے یہ بل لایا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون پہلے ہی موجود ہے، اس لئے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ اراکین سینٹ نے اٹھارویں ترمیم کے باوجود ایچ ای سی کو تحلیل نہ کرنے کے معاملے پر حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومتوں کو ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بنانے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ، پیشہ ورانہ تعلیم وفنی تربیت انجینئر بلیغ الرحمان نے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز تعینات کرنا ایچ ای سی کی نہیں، صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی حکومت نے رواں سال اعلیٰ تعلیم کے لئے ایچ ای سی کے فنڈز بڑھا کر 91 ارب روپے کر دیئے ہیں۔ ایچ ای سی میں صوبوں کی برابر نمائندگی موجود ہے، کیو ایس رینکنگ کے مطابق ایشیاء کی ٹاپ 350 یونیورسٹیوں میں سے اس سال 10 پاکستان کی ہیں، یو ایس رینکنگ میں بھی ہمارا درجہ بہتر ہے، 10 ہزار سے زائد پی ایچ ڈیز اس سال پیدا کئے گئے ہیں۔ ایوان میں شیری رحمان کی حکومت پر موجودہ دہشت گردی کے لہر کے حوالے منا سب اقدامات نہ کرنے پر تنقید کی جس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان اور سینیٹر شیری رحمن میں جھڑپ ہو ئی ،سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ سیہون شریف اور ملک میں حالیہ دہشتگردی کی لہر انتہائی اہم معاملہ ہے،100دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کی خبریں آئیں اگر سو دہشتگردوں کی اطلاعات تھی تو پھر انتظارکس بات کا کیا جارہا تھا، سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ حالیہ دہشتگردی کے واقعات میں معصوم انسانی جانیں ضائع ہوئی ہیں،نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے بعد 85فیصد دہشتگردی کم ہوئی ہے،مکمل خاتمے تک جنگ جاری ہے،دہشتگردی کے معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے،دہشتگردی کے معاملے پر پوری قوم متحد ہے،ایسی بات کرنا کہ دہشتگردی کے خلاف کچھ نہیں کیا جارہا ہے درست نہیں ہے،حکومت اور وزیراعظم دہشتگردوں کے خلاف جو ایکشن لے رہے ہیں،یہ دنیا کے سامنے ہے،سندھ میں لاشیں ملبہ سے برآمد ہوئی ہیں، نالے اور ملبے سے لاشوں کے ٹکڑے ملے ہیں، وہاں پر گورننس کا یہ عالم ہے لیکن یہاں ایوان میں نمبر بنا رہے ہیں۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی ) فوجی عدالتوں پر قومی اسمبلی اور سینٹ کے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں ’’بریک تھرو‘‘ کا امکان ہے۔ اسحق ڈار کی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں کا نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں سپیکر نے سینٹ میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کو حکومت کی درخواست پر مدعو کیا ہے جن رہنمائوں کو مدعو کیا گیا ان میں مشاہد اللہ خان، تاج حیدر ،مشاہد حسین سید ، محمد اعظم سواتی ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی ، سید مظفر حسین شاہ ، اسرار اللہ زہری ،میر حاصل بزنجو، سراج الحق، محمد عثمان کاکڑ ، محمد طلحہ محمود ،الیاس بلور ،کرنل سید طاہر حسین مشہدی اور ہدایت اللہ شامل ہیں ۔وفاقی وزیرخزانہ اسحق ڈار اور پس پردہ قوتیں سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطے ہیں اور انہیں دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیش نظر آئینی ترمیم کی حمایت پر آمادہ کیا۔ ایاز صادق اور اسحاق ڈار کے حزب اختلاف کے پارلیمانی رہنماوں سے رابطے ہیں۔ انہیں آگاہ کیا کہ حکومت فوجی عدالتوں کے معاملے پر 27 فروری کے بجائے 23 فروری کو اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ آئینی ترمیم کو تمام جماعتوں کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے آئینی ترمیم میں مزید ترامیم کی جائیں گی جس کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے آئینی ترمیم کی حمایت کا امکان ہے ۔