سپریم کورٹ میں دائل دیتے ہوئے ہمارے سابقہ وزیر اعظم کے وکیل صاحب نے عدالت میں جب نیلسن منڈیلا کی قید سے ان کے اوپر لگے الزامات کا دفاع کیا تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ ویسے تو سیاست میں سب کچھ جائز ہے لیکن کیا شخصیتوں کے یوں تقابلی جائزے بھی ممکن ہیں یا جناح ثانی سے نیلسن منڈیلا کا یہ سفر پانامہ سے ہی شروع ہوتا ہے- پھر یہ سوچتے سوچتے میں سوچتا ہوں کہ اس پہ کیا لکھوں- کیا معاشرے میں جن کا بھی عدالتِ عالیہ میں ٹرائل ہو سب اتنے مہان ہوتے ہیں کہ دولت اور ایک اچھا وکیل انہیں کردار کی اوج ثریا تک لے جاتا ہے- غریب ہے تو سزائیں اور چمک ہے تو اوصاف وہاں لے جائیں کہ جہاں لکھنے والا یہ سوچے کہ
خون سے انمٹ تحریر کیسے لکھے - لفظوں کے پھول لکھے یا کچھ ایسے کانٹؤں کا ذکر کرے کہ لگے زخموں کو قرار آ جائے – پھر معاشرے میں ہوتے فیصلے اور عام زندگی میں آتے نشیب و فراز اور ان کے لگے گھاؤ بھی کبھی بھرتے ہیں یا ان میں کوئی لمحہ ئ سکون بھی میسر آتا ہے-مشال کے قتل میں اس جامعہ کی انتظامیہ اور انصاف کا پرچار کرتی تحریک کے ایک مفرور تحصیل کونسلر (جس کو ٹکٹ دیتے وقت شاید اسے کامیاب گھوڑا قرا ر دینے سے پہلے اس کے اندر کے انسان کی بھی پوچھ پرتیت کر لی جاتی تو آج اس کا مختلف فورمز پہ دفاع نہ ہی کرنا پڑتا)جیسے علمبردار - اسمائ کا قاتل پندرہ سالہ قریبی رشتہ دار ہو یا زینب کا قاتل اس کی نمازہ جنازہ پڑھنے والا اس کا ہمسایہ- عاصمہ رانی کی موت کی وجہ اس کے جسم میں اتاری گئیں گولیاں ہوں اور موت کی نیند سلا دینے والا شادی کا خواہشمند اس کا اپنا ہی ایک کزن ہو تو کیا لکھوں- نقیب اللہ مسحود ہو یا کسی ماں کا جایا مقصود ، کسی کا جگر گوشہ عمار ہو یا انتظار ، ماضی کا عابد باکسر ہو یا آج کا راؤ انوار ان عہدوں پہ پہنچنے کے لئے انہوں نے کس کس کا کب کب بیگناہ خون کیا اور پولیس مقابلے کے ایسے ڈرامے رچائے کہ مرنے والے کی ہتھ کڑی بعد از موت بھی نہیں اتاری گئی تو ایسی پولیس ان کے افسران اور ان افسران کے پیچھے پتلی تماشا دکھاتے فنکار کہاں سے ڈھونڈوں اور کس قلم سے وہ داستانیں لکھوں جن میں کلی اسماعیل کی طیبہ کا قاتل آبرو ریزی کرنے کے بعد لہو میں بھگو دینے والا اس کا اپنا بھائی ہو – مردان میں ماموں کے ہاتھوں جنسی تشدد کے شکار بھانجے کا قصہ بیاں ہو یا اسلام آباد میں 12 سالہ فلپائنی بچے کو اپنی کالی کرتوتوں کا نشانہ بنانے والے اس کے روحانی باپ ایک معلم کی شان میں قصیدہ سرائی ہو- رتیں بوجھل ہیں اور دل اداس – یہ معاشرہ کس سمت کا انتخاب کئے ہوئے ہے اس کی منتخب کی ہوئی سمت پہ اظہارِ خیال ہو یا معاشرے کی زبوں حالی اور اس کے پیچھے ان عناصر پہ ایک بے لاگ تبصرہ ہو- کچھ تو ہو کہ جس کے دم سے دنیا کا کاروبار اور مشتہرین کا روزگار چلے- مجھے تو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ قانون کیا ہے- مجھے تو یہ معلوم ہے کہ قانون وہ دستور ہے جس کے مطابق افراد کو یکساں حقوق و انصاف ملتا ہے جس کو بنیاد بنا کر ریاستی معاملات اور امور ایک ایسے نظم و ضبط سے چلائے جاتے ہیں کہ وہ معاشرے کی تربیت ، ترقی ، خوشحالی اور فلاح کا باعث بنتا ہے- اسے رنگ و نسل ، زبان و لباس، مذاہب و نظریات کے اختلافات کے باوجود بھی امن و سلامتی کا گہوارہ بناتا ہے- اور اگر قانون سے مجرم ، ملزم اور معصوم کا فرق مٹ جائے تو سزا و جزا کے عمل میں صرف غریب کی فاطمہ ہی کیے نہ کیے پہ ہاتھ کٹواتی ہے اور یہ کٹتا ہاتھ لاقانونیت ، سفاکی و بربریت، استحصال اور ظلم کا وہ منظر بناتا جاتا ہے کہ انارکی ، انتشار، بربادی سے دوچار یہ معاشرہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصولوں پہ کاربند ایسے بد مست ہاتھی ہی جنم دیتا ہے جو اسے روندتے ہوئے بے توقیر کرتے جاتے ہیں- کسی دھنیہ یا سائیکل چور کی ماں ،بیٹی ، باپ ، بیٹا یا بہن بھائی اٹھاتے اور چادر چار دیواری کے مذاق اڑاتے تو میں روز دیکھتا ہوں لیکن اپنے پیٹی بھائی کے ساتھ پیٹی بھائی کی گاڑھی چھنتی دیکھ کر بھی میں جب خاموش رہتا ہوں تو سوچتا ہوں خونِ دل سے کیا لکھوں- قانون بنانے والے جب خود اسی قانون کو جنگل کا قانون کہہ کر پکارتے ہیں تو مجھے خوف آتا ہے کہ اگر یہی منصف اور انصاف پہ یوں گلی گلی، کوچہ کوچہ، شہر شہر جلسے جلوس اور قانونی اداروں کی تضحیک کرنے والوں کے بازو پکڑ کے اپنا جانباز سپاہی بتاتے ہیں اور اپنی بیلٹ و ٹوپی اتارنے والوں کا ماتھا چومتے ہیں تو کیا یہ قانون پھر شاہ زیب ، زین، نقیب ، مقصود ، عمار اور انتظار کو انصاف دے سکے گا- کیا ہم اس مذہب کے امام ہیں یا ہوس سے بھرے انسان جو مسلمان ہونے کی عبا ء اوڑھ کے انسانیت کا جنازہ اٹھائے اسلام آباد سے پہلے رکتے ہی نہیں - دھرنا دھرنا کرتے دو چار جوان اور مرواتے ہیں -کامیاب مذاکرات کاسوئمبر رچاتے گلے لگتے جاتے ہیں – کسی کے گھٹنے پکڑے تو کسی کا گریبان – کسی سے معاہدہ لکھا اور قانون سے بالا بالا ہی کچھ ایسے فیصلے کئے کہ زمیں کے نیچے دبے شہدائ بھی بھول گئے اور ان کے ورثائ بھی در خور اعتنائ کردیے گئے کہ ان کا کام جان دینا تھا سو جان دی جب دی ہوئی انہیں کی تھی – ظاہر ہے جب قانون کمزور ہوجائے تو یہی کچھ ہوتا ہے جو آج ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے – میں کس سے موازنہ کروں جب میں دنیا کو دیکھتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی انسانی حقوق کی حق تلفی ہوتی ہے مضبوط بنیادوں پہ استوار قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں لیکن یہاں ایک قانون کا رکھوالا بھرے چوراہے کچلا جائے تو صاحبِ حیثیت اس وقت گرفتار ہو کہ جب مخصوص مشروب کی مقدار ایک خاص مقررہ معیار سے نیچے ہونا اٹل ہو تاکہ کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیداہی نہ ہوں کہ جن کا دفاع مشکل ہو- جب مقدمہ سیدھا تو پھر مقتولین کے ورثائ کا خون بہا کیسے ممکن ہے کہ طے نہ ہو- سزا کی بجائے جب قانون کی راہیں ہی جب قانون کے مطابق یوں استوار کر دی جائیں کہ بااثر کے لئے امان ہی امان ہو تو صاحب میں کیا لکھوں- یہ راہ ِفرار اور یہ مستقبل سے آنکھیں بند کر لینے والی روایت ہماری جواں ہوتی نسلوں میں عدمِ تحفظ اور بے یقینی کو بڑھاوا دے رہی ہے- ایک زخم ہے کہ بھرتا نہیں اور دوسرا لگا دیا جاتا ہے – ہمارے سینوں پہ لگتے یہ پے در پے کے وار ہمارے حکمرانوں کے کانوں سے چکنے گھڑے کی طرح پھسل جاتے ہیں- انتخابات کی گہما گہمی میں کھوجانے والے نوشتہئ دیوار پڑھ ہی نہیں پا رہے جن پہ ہماری معاشرتی بد حالی خون کی ایک ایک بوند سے لکھی ہوئی ہے- حکومتی منصوبہ بندیاں اور امن و امان کی صورتحال ذہنوں کو یوں متاثر کر رہی ہیں کہ اب اٹھتا ہوا یہ اعتبار لوگوں کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے پہ مجبور کر رہا ہے- اس لئے درست سمت کا تعین نہ کرنا اور حالات کی سنگینی کو نہ جانچنا ایک ایسا جرم ہے جو ہم کر رہے ہیں اور خمیازہ بھگت رہے ہیں-