پاکستانی معاشرہ میں خوشامد اور منافقت کے تیز ترین چلن نے بے چینی اور اضطراب کی اتنی تندو تیز ہوائیں چلا رکھی ہیں کہ ماحول چاہے سیاست کا ہو دفتر کا ہو ، میدان عمل کا ہو یا زندگی کے کسی بھی شعبہ ہائے نامہرباں کا ہو۔ خوشامد اور منافقت سر چہڑور کر برسر پیکار دکھائی دیتی ہے۔ سیاسی وڈیروں کے ڈیروں پر تو خوشامد کی پری نے مستقل قبضہ جمایاہوا ہے۔ جو جتنا زیادہ چرب زبان ہے۔ مکھن لگاؤ ہے۔ وہ اتنا ہی صاحب کے فیصلوں پر اثر انداز ہے۔ پھر یہ فطری کمزوری ہے کہ جو شخص بھی زبان وبیان کی مٹھاس کے زور پر صاحب کے د ل پر براجمان ہوجاتا ہے۔ وہ پھر کسی اور کو اس مقام تک پہنچنے نہیں دینا چاہتا۔ اس لئے وہ نت نئے انداز ، بہانے، قلابے، القاب وخطابات ایجاد کرتے کرتے صاحب اختیار کو مسلسل اپنے سحر میں جکڑا رہنے دینا چاہتا ہے ایسا اب صرف پاکستان میں ہورہا ہے؟ نہیں، نہیں ہرگز نہیں، جہاں جہاں بھی انسان ہے وہیں وہیں اختیار، طاقت حکومت کے گردا گرد خوشامد، خوشامدی ، منافقت اور منافقین کا پہرہ لگاہوا ہے۔ جو سچائی، حقیقت اور اصل معاملات کو کسی بھی طرح ’’صاحب موصوف‘‘ تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے۔ اس بات کا خیال مجھے اس وقت بڑی شدت سے ستانے لگا۔ جب ایک ’’صاحب اختیار‘‘کے گرد موجود محفوظ حصارنے آنے والے معالج سے تاکیدی انداز میں کہا کہ چاہے بلڈ پریشر کتنا ہی کیوں نہ ہو۔ صاحب کو 70/110ہی بتانا ہے۔ جب معالج نے صاحب کو یہی کہا تو صاحب فرمانے لگے۔ یار کل تو 80/120 تھا۔ جب میں بلڈ پریشر ہسپتال سے چیک کرارہا تھا۔ ایسے معمولی جھوٹ صاحب کو ہارٹ اٹیک جیسے سنگین معاملے سے بھی دوچار کردینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ لیکن صاحب اور صاحب کے حواری صاحب کو ہمیشہ خوش رکھنے کے لئے مسلسل جھوٹ بولتے ہیں۔ خوشامد کرتے ہیں۔ اگر صاحبکو کسی حوالے سے اصل خبر یں دی جائے تو پھر بھی حتیٰ الوسیع ’’صاحبان صاحب‘‘کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ صاحب کو سب ہرا ہی ہرا دکھایاجائے۔ میاں نواز شریف عمران خان، زرداری ، میاں شہباز شریف اور ہر صاحب اختیار کے گرد اپنا اپنا ہی حلقہ، خوشامد موجود ہے۔جو صاحب کی قل چکنے لفظوں سے چکنی بنائے رکھے ہوئے ہیں۔ بچھو، سیاہ بچھو، سانپ، بھڑاور ہر زہریلی چیز کا زہر اتنی تیزی سے اثر نہیں کرتا جتنی تیزی سے خوشامد کا زہر اثر کرتاہے اور انسان کی عقل اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے سیانے لو گ خوشامد کے ذریعے نہ صرف دل ونظر بلکہ ہر اس شئے کو شکار کرلیتے ہیں۔ جس کو شکارکرنا چاہتے ہیں اس لئے ہر طرف خوشامد کا بازار گرم ہے۔ منافقت نے ہمارے معاشرے کو حقیقت میں کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ وہی لوگ جو خوشامد میں پیش پیش ہوتے ہیں وہی لوگ منافق بھی اول درجے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب وہ اپنی غرض خوشامد سے پوری ہوتی ہوئی نہیں دیکھتے تو منافقت اختیار کرلیتے ہیں۔ دن کو ایک ڈیرے پر اور رات کو دوسرے مخالف صاحب کے ڈیرے پر ! خوشامد اور منافقت خود اختیاری چیزیں ہیں۔ کیونکہ انسان ان کے بغیر بھی زندگی بڑی سہولت اور آسانی سے گزار سکتاہے۔ لیکن اس کے لئے ہر در چھوڑ کر صرف ایک در کو چننا پڑتاہے اور یہ در خدائے واحد ولاشریک کادر ہے۔ لیکن خوشامدی اس در کی طرف رجوع کرنے کی بجائے صرف اپی ذاتی جبلت کی تسکین کیلئے دردر کی کاسہ یسی کو پسند کرلیتے ہیں۔ آج کے سیاسی منظرنامہ میں آپ آسانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کون کون خوشامدی ہے اور کون کون منافق ہے کیا ہر انتخاب میں نئی سیاسی پارٹی کا ٹکٹ لیکر
الیکشن لڑنے والے منافق نہیں ہیں کیا ایک شخص کو کروڑوں روپے صرف ادب کی خدمت کے صلہ میں عطا کئے گئے ہیں۔ آثار بتاتے ہیں کہ کون کون خوشامد جیسی علت کا عنوان ہے اور آثار وقرآئن ہی بتاتے ہیں کہ کون کون منافق ہیں۔ لیکن ہربات سمجھنے کے باوجود ہمار ا معاشرہ مسلسل خوشامدی اور منافقتوں کے حامل حضرات کو پسند کرتاہے۔ کوئی اپنی ضرورت کے لئے اور کوئی اپنی ذاتی تسکین کیلئے اور تو اور خوشامد کے بغیر کوئی اعلیٰ عہدوں پر نہیں پہنچ سکتا۔ کیا کوئی خوشامدی کسی کا بھی وفادار ہوسکتاہے؟ کیا کوئی منافق کسی کا بھی بہی خواہ ہوسکتاہے؟ نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ تو صرف اپنی خواہشات کے غلام ہوتے ہیں ان کو نہ ہی کسی سے غرض ہوتی ہے اور نہ ہی کسی سے کوئی کام ہوتاہے۔ ان کو صرف اپنے آپ سے غرض ہوتی ہے اور اپنے آپ ہی کے کام سے کام ہونا ہے۔ ایوان اقتدار تو چاپلوسوں سے ہمیشہ ہی بھرارہا ہے۔ بھرا رہا ہوگا اور بھرا رہے گاکیونکہ سوکام نکلتے ہیں خوشامد سے جہاں میں جب تک دنیا میں خوشامدی اور منافق موجود ہیں۔ دنیا میں انصاف، اچھائی ، ایمانداری، سکون واطمینان اور بہتری نہیں آسکتی۔ دنیا میں بہتری لانے کیلئے لازمی ہے کہ حقائق کا پوری طرح ادراک کیاجائے۔ یہاں ایک صاحب مسلسل بولتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا ذرا وہ اپنے گرد موجو د اپنے اور پرائے لوگوں کے خوشامدانہ رویوں پر تو غور کریں۔ یاد رکھیں ، وہی لوگ جو آپ کو دیوتا بنارہے ہوتے ہیں دراصل آپ کی آنکھوں میں دھول جھونک کر اپنا الو سیدھا کررہے ہوتے ہیں اہل دنیا جب تک سچے ،کھرے اور صاحب کردار لوگوں کی قدر کرنا نہیں سیکھے گی۔ اپنے اور پرائیوں کی خوشامد اور منافقت کاشکار ہوتی رہے گی۔ بقول محمد یونس کے خوشامد کی قینچی فہم وفراست کے پر کاٹ دیتی ہے۔
٭٭٭٭٭