پارلیمان میں طبلِ جنگ بج رہا ہے۔ عدلیہ کے خلاف اور ججوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ افسوس صد افسوس یہ سب کچھ جناب نواز شریف کی ایما پر شاہد خاقان عباسی کر رہے ہیں۔ سندھ ساگر کے داستان گو اعتزاز احسن نے میدان جنگ کا بڑا خوبصورت تمثیلی نقشہ کھینچا ہے۔ اعتزاز احسن نواز شریف کی عدلیہ مخالف حکمت عملی کو جنگی حکمت عملی سے تشبیہ دیتے ہوئے کہتے ہیں نواز شریف اور پارٹی نے بڑی سائنس کے ساتھ حکمت عملی اپنائی ہے۔ جنگ کا آغاز بالکل ویسے کیا گیا جیسے فوجیں دور دور سے آرٹلری فائر کرتی ہیں۔ پہلے آرٹلری فائر اور پھر پیادہ فوج، آرمرڈ جا کر دشمن کی زمین پر قبضہ کرتا ہے۔ انہوں نے بھی گالی گلوچ بریگیڈ سے حملہ شروع کرایا پھر مریم، پھر نواز شریف خود میدان میں آچکے ہیں اور اب سارا توپخانہ چلا دیا گیا۔ توپخانہ پورا چلا کر جج محمد بشیر کو بھی ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ کیا وہ سمجھتے ہیں توپخانہ چلا کر چیف جسٹس اور ججز کو بیک فٹ پر کر چکے ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ عدلیہ نے بیک فٹ پر ہو کر حدیبیہ، اورنج ٹرین کا فیصلہ دے دیا۔ اب وہ سمجھتے ہیں ہماری گولہ باری سے دشمن زخمی، نڈھال، پریشان، کمزور ہو گیا ہے۔ ن لیگ کی اگلی حکمت عملی میں اب پیادہ فوج ، ٹینک دشمن کے علاقے میں چڑھائی کریں گے ان اداروں کو دشمن سمجھ رہے ہیں، جن پر انفنٹری اور کیولری فوج کے ذریعے چڑھائی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم کا قومی اسمبلی میں بیان دینا پیادہ فوج کے حملے کا آغاز ہے۔ اب انفنٹری اور کیولری کا حملہ ہو گا سیدھے ان اداروں پر قبضہ کرنے کے لئے پیش قدمی ہوگی یہ 1998 میں سپریم کورٹ پر ہونے والے حملے سے زیادہ کاری ہو گا۔ 1998ء میں حملہ باہر بیٹھ کر کیا، اب علاقے میں گھس کر قبضہ کریں گے۔ یہ سمجھتے ہیں ’’دشمن‘‘ کی کمر ٹوٹ چکی ہے جبکہ ایسا وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نوازشریف سے ذاتی تعلقات کو آئین، ریاست اور جمہوریت پر فوقیت دی۔ عدلیہ کے خلاف ایک اور دستوری ستون انتظامیہ کا کندھا پیش کردیا۔ عدلیہ کے ہاتھ قلم کرنے اور پر کاٹنے کے لئے تیاری تو شروع ہی تھی اب اعلان بھی ہوگیا۔ گھْمسان کے اس رَن میں بیچارے عوام آگ کی نذر ہوجانے والے جنگل میں بھاگتے چرندپرند کی مانند ہیں۔ انا کے اونچے قلعے سر کرنے کے لئے اسلامی جمہوریہ پاکستان اور اس کے مظلوموں کی آرزوئیں پامال ہوجائیں، کسے پرواہ ہے۔ ریاستی ادارے، جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی کے نام پر آئین شکنی کر رہے ہیں۔
جج صاحبان اور افواج کو مکمل آئینی تحفظ حاصل ہے ایک اور المیہ یہ ہے کہ حزب اختلاف جناب زرداری اور عمران نیازی کے ہاتھ میں ہے جن کے اپنے ہاتھ میں کچھ نہیں۔ ایک نے کالے بکروں سے حکومتی وقت پورا کیا تھا تو دوسرا وزیراعظم ہاؤس میں داخلے کے لئے تعویز دھاگوں اور انگوٹھیوں سے نامراد ہوکر پیرنی ہی گھر لے آیا۔
رہے نوازشریف تو خود پسند سیاستدان بن کر پوری قوم کا صدقہ دینے پر تُل گئے ہیں۔ عوام کے ووٹوں سے براہ راست منتخب ہونے والے ایوان قومی اسمبلی میں قائد ایوان وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے سوال اٹھایا! کیا منتخب حکومت کو قانون سازی اور فیصلے کرنے کا حق نہیں؟ ہم حلف لیتے ہیں کہ آئین کا دفاع کریں گے تو کیا ہمیں قانون سازی کا حق نہیں ؟کیا ہمیں اجازت لے کر قانون سازی کرنا ہوگی؟‘مزید گرجے ! میں اداروں پر تنقید نہیں کر رہا۔ حقائق پیش کر رہا ہوں، عدالتوں میں منتخب نمائندوں کو کبھی چور،کبھی ڈاکو اور کبھی گاڈ فاردر کہا جاتا ہے۔ پینترا بدل کر احتجاج کیا ! سرکاری افسران کو عدالت میں طلب کرکے بے عزت کیا جاتا ہے، حکومتی پالیسیوں کو مسترد کیا جاتا ہے‘ حل بیان کیا کہ ’اداروں کے تصادم سے بچنے کے لئے بہتر ہے کہ یہ ایوان اس معاملے پر بحث کر لے۔ سکھر کے سید زادے خورشید شاہ قائد حزب اختلاف کے مورچے سے وزیراعظم کو مخاطب کرکے بَرسے ! جناب وزیراعظم صاحب ! کسی اور نے نہیں ہم نے خود اس پارلیمنٹ کا تقدس پامال کیا ہے۔ یاد دلایا! جو بحث وزیراعظم صاحب آج ایوان میں لائے ہیں وہ تو بہت پہلے ہونی چاہئے تھی۔
شکوہ فرمایا ! ’جب ہم عدلیہ کو احکامات دیتے تھے، تو ٹھیک ہوتا ہے؟ قانون سازی کسی شخصی مفادات کے لئے کی گئی تو تباہ کن ہوگی‘ جاتا اصول پرستی کا تڑکا بھی لگا دیا ! ملک وقوم کے لئے کریں گے توہم آپ کے ساتھ ہیں۔ سارے ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں یہ پاکستان کیلئے بہتر ہے ہمیں ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر ان کا اقرار کرنا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفرجھگڑا اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک میں سینٹ نشستوں پر تعاون کے لئے رابطہ ہوگیا۔
گورنر نے وزیراعلیٰ کے رابطے کرنے کی تصدیق بھی کردی۔ قومی اسمبلی میں یہ جوش و جذبہ جاری تھا توساتھ والے ایوان بالا سینٹ کے ارکان کی نشستوں کے لئے ’’سٹاک ایکسچینج‘‘ تمام نفسیاتی حدیں عبور کرگیا ہے۔ ان امور میں گہرا علم و ہنر رکھنے والے حضرت مولانا فضل الرحمن چْپ نہ رہ سکے اور حق گوئی کا پرچم ایک بارپھر لہراتے ہوئے کہا ’سینٹ کے لئے منڈی لگی ہے۔ گھوڑے خریدے جا رہے ہیں۔ منڈی میں ووٹ بیچنے والے کیسے قانون سازی کریں گے۔ ہائے ہائے اس سادگی پر کون نہ مرجائے۔ اے خدا۔۔۔
خود حضرت مولانا ڈیزل کو یہ شعر پسند ہے ’
ہر داغ ہے اس دِل پہ، بجز داغ ندامت‘
کروڑوں روپے کی باتیں راہداریوں اور گلی کوچوں میں ’ٹاک آف دی ٹاؤن‘ بنی ہوئی ہیں۔ قانون کی حکمرانی کے بوجھ تلے دبی وزارت داخلہ کے ’چھوٹے وزیر‘ طلال چوہدری نے تو سیدھی بات کردی۔ ہمارے علم میں اضافہ فرمایا کہ ’ہمسایہ ملک میں کئی درجن ججز توہین پارلیمنٹ پر فارغ ہوئے‘ واہ واہ کیا کہنے۔
توہین عدالت کا ایک مطلوب ملزم قانون کی تشریح سے ہماری راہنمائی کر رہا ہے کہ ’توہین پارلیمنٹ پر بھی آئین میں ترمیم لانی چاہئے۔‘ ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی وزارت کے ’بڑے وزیر‘ پروفیسر احسن اقبال بھی پیچھے نہ رہے۔ جملہ اچھال دیا ’نوازشریف کی براہ راست تقریر پر پابندی قوم پری پول دھاندلی شمارکرے گی۔ایک تیر میں دو شکار کئے کہ ’ بھٹو کی پھانسی کو پی پی انصاف کا قتل قرار دیتی ہے تو کیا سمجھا جائے وہ توہین عدالت کر رہی ہے۔ نوازشریف کے ساتھ جتنا جبر کیا جائے گا‘ اْن کی حمایت میں اضافہ ہوگا۔ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی ایوان کے اندر جو ’اصولی جملہ بازی‘ ہوئی وہ اپنی جگہ لیکن نگران وزیراعظم کے تقرر پر مشاورت ہوئی۔ خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں لینے کا اعلان کیا ہے۔
حکومت ہو یا اپوزیشن میں ’اصول پسندی کی مالا جپتے‘ قائدین کرام' عدلیہ اور فوج کے بارے میں باہم متفق محسوس ہوتے ہیں۔ الفاظ مختلف ہو سکتے ہیں ان کا چناؤ الگ ہو سکتا ہے لیکن اس ’راگ‘ کا بنیادی خیال اور تان ایک ہی ہے۔ عدالتی ریمارکس کو ’سمع خراشی‘ سمجھنے والے موسیقاروں اور ہدایت کاروں نے نئی ’دْھن‘‘ کی تیاری شروع کردی ہے۔ سازندوں کا انتظام اور مدھر سرتال کا بندوبست ہوا چاہتا ہے۔ کہتے ہیں کہ بنیادی مسودہ قانون تیار ہے۔ بس اشارے کا انتظار ہے ۔