اسلام آباد، کراچی (نامہ نگار،سالک مجید‘ وقائع نگار) قومی احتساب بیورو (نیب) نے آمدن سے زائد اثاثوں کے الزام میں سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کرنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کر کے ان کا 3روزہ راہداری ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔ نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو کراچی نے نیب راولپنڈی اور نیب ہیڈ کوارٹرز کے انٹیلی جنس ونگ کی معاونت سے آغا سراج درانی کو گرفتار کیا، ملزم پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام ہے، ملزم کو ریمانڈ کے لئے (آج) جمعرات کو احتساب عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ نیب ذرائع کے مطابق آغا سراج درانی کو گرفتار کر نے کے لیے چیئرمین نیب سے باقاعدہ ہدایت لی گئی تھی، بدھ کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل سے گرفتار کیا۔ نیب کافی عرصے سے آغا سراج درانی کے خلاف تحقیقات کررہا ہے۔ انہیں نیب کے دفتر منتقل کردیا گیا۔ بعد ازاں نیب نے سپیکر سندھ اسمبلی آغاسراج درانی کو غیرقانونی اثاثہ جات ریفرنس میں احتساب عدالت کے جج محمدبشیر کے روبرو پیش کیاگیا، وکیل نے کہا آغا سراج درانی کو نیب کراچی ٹیم نے گرفتار کیا، مجاز اتھارٹی نے وارنٹ گرفتاری جاری کیے، ملزم کیخلاف کراچی میں اثاثہ جات ریفرنس زیرسماعت ہے۔ نیب نے کہا کہ آغا سراج درانی اور ان کے خاندان کے گیارہ افراد کے خلاف اثاثوں کی تحقیقات چل رہی ہے، ان کی کراچی، حیدرآباد اور سکھر میں جائیدادیں ہیں، جن کی وضاحت نہیں دی گئی۔ نیب کی جانب سے 7دن کے راہداری ریمانڈ کی استدعاکی گئی تھی، جس پر احتساب عدالت نے آغاسراج درانی کا 3روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرلیا اور ملزم کو3دن بعد کراچی کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ نیب حکام نے کہا آغا سراج درانی کو واپس کراچی لے جائیں گے ، موسم کی خرابی کے باعث زیادہ وقت مانگا، عدالت نے آغا سراج درانی کا طبی معائنہ بھی کرانے کا حکم دیا۔ جس کے بعد نیب ٹیم سپیکرسندھ اسمبلی آغا سراج درانی کو کراچی لے کر روانہ ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق نیب کراچی نے آغا سراج کو کئی مرتبہ طلب کیا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ آغا سراج درانی کی اسلام آباد سے گرفتاری کے حوالے سے نیب ذرائع نے بتایا کہ کہ نیب کو کراچی سے ان کی گرفتاری میں کافی مسائل تھے۔ آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ وہ اپنے خلاف کیسز اور اہم دستاویزات پر اثر انداز میں ہوسکتے تھے۔چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے گزشتہ سال اپریل میں آغا سراج درانی اور سندھ اسمبلی کے سیکرٹری غلام محمد کے خلاف غیرقانونی تقرریوں اور آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری شروع کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعدنیب کے ریجنل ڈائریکٹر نے پیپلز پارٹی کے رہنما کے خلاف 3الگ الگ تحقیقات کا آغاز کیا تھا جس میں پہلی تحقیقات میں آغا سراج درانی پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا الزام تھا۔نیب ذرائع کے مطابق نیب نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمشن آف پاکستان(ایس ای سی پی)سے آغا سراج درانی اور اہل خانہ کی کمپنیوں کا ریکارڈ لے لیا ہے ۔نیب ذرائع کے مطابق سپیکر سندھ اسمبلی نیب کو اپنی جائیداد کے ذرائع آمدن سے متعلق مطمئن نہیں کرسکے۔ اس کے علاوہ ان پر دوسرا الزام 352غیر قانونی تقرریوں کا تھا جبکہ ان کے خلاف تیسری تحقیقات ایم پی اے ہوسٹل اور سندھ اسمبلی کی نئی عمارت کی تعمیر کے لیے مخصوص فنڈز میں خورد برد سمیت ان منصوبوں کے پراجیکٹ ڈائریکٹرز کی تقرریوں سے متعلق تھی۔ احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں آغا سراج درانی نے کہا کہ اسلام آباد ایک دعوت پر آیا تھا کہ مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتاری کے بارے میں نہ ہی پہلے اطلاع نہیں دی گئی نہ ہی نیب دفتر بلایا گیا۔ سب کو پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے، عدالت میں اپنا کیس لڑوں گا۔ نیب کی طرف سے ایک پرفارما بھیجا گیا تھا، جسے میں نے پر کرکے واپس بھیج دیا تھا۔ علاوہ ازیں آغا سراج درانی کی گر فتاری کے بعد کراچی میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا گیا اور کچھ دیر مزاحمت کے بعد نیب حکا م بنگلے کے اندر جا نے میں کا میا ب ہو ئے اور گھر کو اطراف سے پو لیس کے ذریعے گھیرے میں لئے رکھا۔ آغا سراج درانی کے وکیل بیر سٹر احمد رجا شاہ نے وہا ں پہنچ کر نیب حکا م کی معاونت کرنے کی کوشش کی تا کہ گھر کے اندر خواتین کی مو جو دگی میں نیب ٹیم کی معاونت کر سکیں لیکن ان کو با ہر روک دیا گیا۔بعدازاں صوبائی وزیر سعید غنی بیر سٹر مر تضیٰ وہا ب سمیت پیپلز پا رٹی کے سینئر رہنما ئو ں کی بڑی تعداد آغا سراج درانی کی رہا ئش گاہ پہنچی مگر ان کو بھی رینجر ز اور سکیو رٹی حکا م نے گیٹ پر روک لیا ۔نیب ذرائع کے مطابق آغا سراج درانی کی رہائش گاہ کی تفصیلی تلاشی لی گئی اور وہاں مو جو د افراد سے پو چھ گچھ کی گئی اور جائیداد کے پر اپر ٹی پیپرز سمیت اہم دستا ویزات گا ڑیا ں اور اسلحے وغیر ہ کے بارے میں رپو رٹ بناکر 3 باکسز کو تحویل میں لے لیا گیا۔ یہ سا مان نیب ٹیم کے ہمراہ لے جا نے کے لئے وہا ں مو جو د تھی ۔وہا ں مو جو د پا ئی جا نے والی اور زیر استعمال گا ڑیو ں کے بارے میں بعد ازاں ایکسائز ڈپا رٹمنٹ اور دیگر اداروں سے معلو مات لی جا ئے گی اثاثہ جات ، جا ئیداد ، بینک اکا ئو نٹ سمیت دیگر امور کی معلو مات اور شواہد جمع کر کے دستا ویزی ریکا رڈ قبضے میں لے لیا گیا۔ دوسری طرف آغا سراج درانی کی گر فتاری کے بعد پیپلز پارٹی کا انتہا ئی سخت رد عمل صوبے اور وفاق کو آمنے سا منے لے آیا ہے ، وفاق کے زیر انتظام مگر خو د مختار ادارہ نیب آغا سراج درانی کو گر فتار کر کے اسلا م آبادسے کراچی لے آیا لیکن صو بائی وزراء اور وکلاء سمیت کسی کونہ تو آغا زسراج درانی سے ملاقات کی اجازت دی گئی نہ ہی آغا سراج درانی کی رہائش گاہ پر چھاپے کے موقع پر کسی کو اندر داخل ہونے دیا گیا جس پر سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کی سربراہی میں صوبائی وزراء اور پارٹی عہدیداروں نے کارکنو ں کے ہمراہ آغا سراج درانی کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی دھرنا دے دیا جس میں صوبائی وزراء ڈاکٹر عذرا بیچو ہو، اسماعیل راہو، امتیا ز شیخ، سعید غنی سمیت مرتضیٰ وہاب، شہلا رضا اور ارکان اسمبلی و پارٹی عہدیداروں کی بڑی تعداد شامل تھی، صوبائی وزراء ن سکیورٹی حکام سے گھر کے اندر جانے اور اہل خانہ سے ملاقات کرنے پر اصرار کیا لیکن ان کو اندر داخل ہونے سے روک دیا گیا جس پر صوبائی وزراء اور پارٹی عہدیداروں نے شدید احتجا ج کیا اور بعدازاں وہیں پر دھرنا دے کر بیٹھ گئے، آغا سراج درانی کے وکلا ء کو بھی ان سے ملاقات نہیں کرنے دی گئی اور ایئر پورٹ سے سخت سکیو رٹی میں آغا سراج درانی کو نیب آفس منتقل کردیاگیا، آغا سراج درانی کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی اور ان کی رہائش گاہ پر نیب حکام کے چھاپے کی تفصیلات سے صوبائی وزراء اور پارٹی عہدیداروں نے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور پارٹی قیادت کوآگاہ رکھا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے آغا سراج درانی کے گھر فون کر کے اہل خانہ سے گھر پر چھاپے کے بارے میں تفصیلات معلوم کیں۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کابینہ ارکان اور پارٹی عہدیداروں سمیت قریبی ساتھیوں سے بھی مشاورت کی۔
اسلام آباد، کراچی (وقائع نگار خصوصی، نوائے وقت نیوز، ایجنسیاں) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جمعیت علماء اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے انکی رہائش گاہ پر اہم ملاقات کی جس میں ملکی سیاسی صورتحال، اپوزیشن گرینڈ الائنس سے متعلق امور ،نیب کی جانب سے گرفتاریوں اور سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے جی سکس میں مولانا کی رہائش گاہ پر جب پہنچے تو ان کا استقبال مولانا فضل الرحمن کے علاوہ ان کے صاحبزادے مولانا اسعد محمو داور دیگر نے کیا۔ اس موقع پر دونوں قائدین سے میڈیا کو بات چیت کرنے نہیں دی گئی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے کچھ دیر تک مولانا فضل الرحمن سے ون آن ون ملاقات کی۔ بعدازاں مولانا فضل الرحمن نے آصف علی زرداری کو رخصت کیا۔نجی ٹی وی کے مطابق آصف زرداری نے گزشتہ روز دوبارہ فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ آصف علی زرداری نے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کا سامنا کرینگے، بہت ہوگیا، تحریک انصاف کی حکومت کو آٹھ نو مہینے دے دئیے، اب مزید وقت نہیں دیں گے۔ آصف زرداری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری کی مذمت کرتا ہوں، ان کو اسلام آباد سے گرفتار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ سپیکر کو گرفتار کرکے جمہوریت کو چیلنج کیا گیا، آغا سراج درانی کو گرفتار کرنا ہی تھا تو کراچی سے گرفتار کرلیتے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم پر گھیرا تنگ نہیں ہوسکتا کیونکہ گرفتاریوں کی ہمیں پرواہ نہیں۔ بلاول میرا اور بینظیر کا بیٹا ہے، اسے کہاں ڈراتے ہو؟ ڈراؤ انہیں جنہوں نے کبھی جیل نہیں دیکھی۔ سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے فیصلے پر ان کا کہنا تھاکہ اداروں کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، جیل جانا پڑا تو وہ تو میرا دوسرا گھر ہے۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ چھوٹے موٹے کیس نہ بناؤ، مجھ پر ایسا کیس بنایا جائے کہ مجھے غدار قرار دے دیا جائے۔ پلوامہ واقعہ پر ان کا کہنا تھا کہ جب میں صدر تھا تب بھی پلوامہ جیسا واقعہ ہوا تھا، ہم نے دنیا کو اپنے ساتھ رکھ کر ممبئی حملے جیسے واقعہ کا سامنا کیا اور سفارتی سطح پر اسے ہینڈل کیا، نابالغ حکومت کو سمجھ نہیں آرہی کہ کرنا کیا ہے، بھارت نے کچھ بھی جارحانہ قدم اٹھایا تو پوری قوم ایک ساتھ کھڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کے کارکن، عوام فوجی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے، بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے، پاکستان کئی سالوں سے دنیا میں تنہا ہو چکا ہے، تحریک انصاف کی حکومت کے بعد پاکستان دنیا میں مزید تنہا ہوچکا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد کا خیر مقدم کیا، ان کی عزت کرتے ہیں۔ ان کے دورے کے دوران نہ ہمیں دعوت دی اور نہ نوازشریف اور شہباز شریف کو۔ سوشل میڈیا پر ایک چارلی کے ذریعے پیغام دیدیا گیا کہ اپوزیشن اس قابل نہیں کہ اسے بلایا جائے۔ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رواں سال گرمی میں بجلی کا بل گاڑی بیچ کر دینا پڑے گا۔ آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ ہر دور میں پیپلز پارٹی کو اپنوں نے ہی دغا دیا، ہمارے رہنماؤں کی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں یہ سیکھیں اور کام کریں، ایسا نہیں ہے کہ ہم طاقت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، ہم چاہتے تھے موجودہ حکومت چلے اور لوگوں کے مسائل حل کرے لیکن اب بہت ہو گیا انہیں 7، 8 ماہ دے دیئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن قدم بڑھائیں ہم ساتھ دیں گے، اگر حکومت دعوت دیتی تو سعودی ولی عہد سے ملاقات کے لیے ضرور جاتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی ایسے رویوں کا سامنا کیا اور آئندہ بھی کریں گے، ہر قانون قابل ترمیم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب عوام کے حقوق کے لئے حکومت سے جنگ کریں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ضمانت منظور ہونے پر شہباز شریف کو مبارکباد دیتا ہوں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کی گرفتاری کی شدید مذمّت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم بے نامی وزیراعظم کوبے وردی آمریت قائم نہیں کرنے دیں گے۔‘ ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں کہا سپیکر پر یہ ’حملہ‘ ناقابلِ قبول ہے اور ’سندھ حکومت کو گرانے کی غیرجمہوری کوشش پہلے بھی ناکام ہوئی اور اب بھی ہو گی۔‘ بلاول کا یہ بھی کہنا تھا کہ غیرجانبدار اداروں کو سیاسی انجینئرنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ علاوہ ازیں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے لندن میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ پاکستان میں مسلسل تین الیکشن ہونا جمہوریت کی بہت بڑی کامیابی ہے چاہے وہ الیکشن جیسے بھی ہوئے ہوں، تین الیکشن کے بعد آمریت کی طرف جانا مشکل ہو گیا ہے۔ نظام کی مضبوطی کیلئے قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان میں پرامن طور پر اقتدار منتقل ہوا، یہ جمہوری کامیابی ہے۔ نئے پاکستان میں آزادی صچافت نہیں، سنسرشپ کی مذمت کرتا ہوں۔ جس قسم کی دھاندلی اس الیکشن میں ہوئی، اس کی تاریخ میں مثال نہیںملتی۔ مجھ سمیت کچھ لوگوں کو نتیجے کیلئے تین دن انتظار کرنا پڑا۔ آج تک پورے فارم 45 نہیں ملے۔ پاکستان میں صحافیوں کا تحفظ چاہتے ہیں۔ حکومت کیخلاف وائٹ پیپر تیار کر رہے ہیں۔ حکومت کا دھاندلی کی تحقیقات سے بھاگنا قبول نہیں کریں گے۔ آزادی اظہار کسی بھی جمہوریت کیلئے اہم ستون ہوتا ہے۔ عدلیہ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ہو گی تو عدلیہ مضبوط ہو گی۔ بے نامی اکاؤنٹ کا اچانک ازخود نوٹس لیا گیا، یہ معاملہ انسانی حقوق کا تو نہیں ہے۔ 6 ماہ میں میرے خاندان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔ حکومت کا انتخابی دھاندلی سے بھاگنا قبول نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت سندھ اسمبلی کا اجلاس بلائے اور سراج درانی کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے جائیں۔ سراج درانی کی گرفتاری پر سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ نوٹس لیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کلمہ پڑھ کر کرپشن میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں کس قسم کا جنگل کا قانون ہے۔ سراج درانی گرفتار، اسد قیصر، پرویزالٰہی، پرویز خٹک کیوں آزاد ہیں؟ بے نامی اکاؤنٹس کیس میں ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ اکاؤنٹس کراچی کے ہیں تو کیس پنڈی کیوں لے جایا جا رہا ہے، ہمیں عدالتوں سے کبھی ریلیف نہیں ملا، ہر صورتحال کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک اور سپیکر کے خلاف بھی الزامات ہیں اور سپریم کورٹ کے بھی ریمارکس ہیں،اس طرح کی گرفتاریاں سے وفاق پر حملہ ہیں۔ بدھ کو اپوزیشن جماعتوںکے پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس ہوا جس میں مختلف امورپر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہاکہ ایک صوبے کے سپیکر اور دوسرے صوبے کے سپیکر کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔ ایک سینیٹر جس کے خلاف سپریم کورٹ کے جج کی تحقیقات ہیںاْس سینٹر کا تعلق حکومتی جماعت سے ہے،اس کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔خورشید شاہ نے کہاکہ اس طرح کی گرفتاریاں وفاق پر حملہ ہیں۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اگر اسمبلی کے سپیکر کے خلاف کوئی الزامات تھے تو اس کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاسکتا تھا۔ انہوںنے کہاکہ ضروری نہیں اْس گرفتار کیا جاتا۔ بابر اعوان کے خلاف دس ملین کا فراڈ ہے لیکن اْس کو گرفتار نہیں کیا گیا۔بختاوربھٹوزرداری سمیت دیگررہنمائوں نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے سندھ پر قبضے کی سازش قرار دیا ہے۔ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں بختاوربھٹو نے کہا کہ سپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری پاکستان اور جمہوریت کی بے عزتی ہے۔ تحریک انصاف نے سندھ پر قبضے کا دعویٰ کیاتھا۔رکن قومی اسمبلی اورپیپلزپارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات نفیسہ شاہ نے کہا کہ آغا سراج درانی کیخلاف کیس ابھی محض انکوائری کے مرحلے میں ہے،اور انکوائری کے مرحلے میں گرفتاری کیسے ہوسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی ترجمان سنیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہاکہ آغا سراج ایک شخص نہیں سپیکر سندھ اسمبلی ہیں انہیں ایسے کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ حکومت نے یہ تاثر دیا ہے کہ چھوٹے صوبہ سندھ کے نمائندے اسلام آباد میں محفوظ نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو نے کہا کہ علیمہ خان کے لئے الگ اور اپوزیشن کے لئے الگ قانون ہے۔پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی کہا آغاسراج درانی کو دھوکے سے بلاکر گرفتار کرنا غیر قانونی اور غیرآئینی ہے۔ مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے کہاہے کہ سپیکرسندھ اسمبلی آغاسراج درانی گرفتاری کے پیچھے کوئی منطق سمجھ نہیں آتی،انکے خلاف انکوائری چل رہی تھی لیکن کوئی کیس نہیں بنایا گیا۔ اگر انکوائری کے دوران گرفتاری ضروری ہے تو کیا چوہدری پرویزالٰہی اور اسد قیصر کیخلاف انکوائری نہیں چل رہی۔دریں اثناء وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی زیرصدارت کابینہ کے سینئر ارکان کا اجلاس ہوا۔ سپیکر سندھ اسمبلی کی گرفتاری سے متعلق قانونی پہلوؤں پر مشاورت کی گئی۔ سندھ کابینہ نے سپیکر آغا سراج درانی کی گرفتاری کی مذمت کی۔ صوبائی کابینہ نے آغا سراج درانی کی رہائش گاہ پر چھاپے کی بھی مذمت کی۔ دوسری طرف کراچی میں ایک تقریب سے خطاب میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاق سندھ کے وسائل پورے کرے جبکہ سندھ اپنے آئینی حق کیلئے لڑتا رہے گا۔ اے این پی کے ترجمان زاہد خان نے کہا کہ پرویز مشرف نے نیب کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کیلئے بنایا۔ عمران خان بھی نیب کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہے ہیں۔ آغا سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کرکے کیا پیغام دیا جا رہا ہے۔ کیا نیب چھوٹے صوبے کو غلامی کی زنجیر میں جکڑنا چاہتا ہے۔ اس طرح کی کارروائیوں سے وفاق کو نقصان پہنچے گا۔
نیب کی کارروائی: سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی اسلام آباد سے گرفتار
Feb 21, 2019