پیر فاروق بہاؤالحق
امام العارفین پیر سید غلام حیدر شاہ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتاہے جنہوں نے اپنے علم و عمل، روشن کردار اور اپنی تعلیمات کی بدولت پورے خطہ پوٹھوہار پر اپنے اثرات مرتب کئے۔انہوں نے اپنے حسن اخلاق کی بدولت مخلوق خدا میں محبت کی شمع روشن کی اور اس کو خدا کی راہ پر چلایا۔ آپ ایک نجیب الطرفین سید تھے اور پاکیزہ خون کے اثرات ان کی شخصیت میں ظاہر ہوتے تھے۔ آپ آستان جنت نشان سیال شریف کے فیض یافتہ خلیفہ مجاز تھے اور اپنے پیر و مرشد کے محبوب مرید تھے۔ آپ کا شمار برصغیر کے ان صوفیاء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے حسن کردار اور اخلاق حسنہ سے لوگوں کے دل موڑے اور اللہ تعالیٰ سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو بحال کیا۔
حضرت پیر سید حیدر علی شاہ ۲۶ صفر المظفر 1254ھ 26اپریل1838کو جلال پور شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد کا اسم گرامی سید جمعہ شاہ تھا اور سلسلہ نسب دسویںپشت میں حضرت سید مخدوم جہانیاں سے جا ملتا ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ ایک عبادت گذار نیک سیرت اور صالح خاتون تھیں۔ خود بھی نماز کی پابند تھیں اور اپنی اولاد کو بھی نماز کی پابندی کی تلقین کرتیں۔ آپ کی والدہ کی تربیت کا اثر تھاکہ آپ بچپن میں ہی مسجد میں جانے لگے اور نماز سے تعلق کچھ اس طرح پختہ ہوا جو کبھی کمزور نہ ہوا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم جلال پور شریف سے حاصل کی۔ والدہ ماجدہ کی تربیت نے اس پر سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ آپ نے قرآن مجید ی تکمیل اپنے چچا سید امام شاہ کے پاس فرمائی۔ اس کے بعد میاں عبد اللہ صاحب سے فارسی اوراردو کی کچھ درسی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری کی تحقیق کے مطابق آپ جلال پور شریف سے کچھ فاصلے پر موجود اس وقت کے ممتاز عالم دین قاضی محمد کامل کے پاس فقہ کے درس کے لئے بھی تشریف لے گئے۔ فقہ اسلامی کی مستند کتاب کنزالدقائق ، عظیم عالم دین علامہ مفتی غلام محی الدین کے پاس پڑھیں۔ حصول علم کے لئے کسی مدرسہ میں مستقل سکونت تو اختیار نہ کی لیکن اس وقت کے معمول کے مطابق مختلف علماء کے پاس حاضر ہو کر علم کی پیاس بجھائی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کا شمار اپنے دور کے متخبر علماء میں ہوتا تھا۔دینی علوم اور دینی مسائل کے حوالہ سے وہ ایک ثقہ رائے بھی رکھتے تھے۔ علماء کی مجالس میں ان کو وہ مقام حاصل تھا جو اس وقت کے کسی اور عالم اور علماء کی جماعت ہو حاصل نہیں تھا۔ حضرت سید حیدر علی شاہ اپنی سربراہی میں علماء کی ایک ایسی جماعت تیار کرنے میں بھی مگن رہتے تھے جو نہ صرف دینی علوم میںمہارت رکھتے ہوں بلکہ دوسری طرف تصوف کی چاشنی بھی ان کی طبیعت میں موجود ہو۔ آپ کے والد ماجد کا وصال تب ہوا جب آپ کی عمرمبارک محض ۱۷ برس تھی۔ والد کا سایہ سر سے اٹھنے کے بعد آپ تلاش مرشد میں نکل کھڑے ھوئے اور مختلف بزرگوں کی درگاہوں پر حاضری دی۔لیکن قدرت نے اس نوجوان سید زادے کا فیض سرگودھا کی ایک بستی سیال شریف میں مخفی کر رکھا تھا جہاں پر شمس سیال حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی معرفت کے جام لٹا رہے تھے ۔ محبت رسول کی لو سے لوگوں کے دل منور کر رہے تھے دلوں کے بنجر کھیتوں کو ذکر الہی سے سیراب کر رہے تھے۔ شمس سیال کی روشنی سے چار دانگ عالم جگمگا رہا تھا اسی روشنی سے نور معرفت حاصل کرنے کے لئے جلال پور شریف کے نوجوان سید زادے یتیمی کی حالت میں حضرت خواجہ شمس العارفین شمس الدین سیالوی کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے۔
روایات کے مطابق حضرت پیر سید حیدر علی شاہ جب سیال شریف حاضر ہوئے تو حضور شمس العارفین نے کھڑے ہو کر اس گوہرنایاب کو اپنے دامن میں لیا اور 17رجب1271ھ کو اپنے دست حق پرست پر بیعت فرمایا۔حضرت جلال پوری سراپا ادب شخصیت تھے۔ اپنے شیخ کے سامنے نگاہیں اٹھانا بھی مناسب نہ سمجھتے۔جب بھی حاضر ہوتے زبان نہ کھولتے بلکہ خاموشی سے اپنے شیخ کریم کے پر نور چہرہ کی زیارت کرتے رہتے۔ آپ نے بیعت حاصل کرنے کے بعد ایک ماہ میں ایک سے زائد مرتبہ سیال شریف حاضر ہوتے۔ اکثر اوقات سیال شریف جاتے ہوئے بھیر ہ شریف قیام بھی کرتے۔ یہاں قیام کے بعد کشاں کشاں سیال شریف کی طرف روانہ ہو جاتے۔ حیرت انگیز طور پر اآپ نے کبھی خلافت حاصل کرنے کی خواہش کا اظہار نہ کیا بلکہ محض مرشد کریم کے دیدار کو کافی سمجھتے اور کچھ دن وہاں قیام کے بعد جلال پور شریف تشریف لے آتے۔آپ کا جسم تو گھر پر ہوتا لیکن آپ کا دل ہمیشہ سیال شریف میں ہی معلق رہتا۔ خواجہ شمس العارفین بھی آپ کے دل کی کیفیت سے بخوبی آگاہ تھے۔ جب بھی آپ سیال شریف اپنے شیخ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تو ان کی بے تاب نگاہیں شمس سیال کے چہرے کا طواف کرتی رہتیں۔جب آپ چھٹی مرتبہ حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی نے آپ کو خرقہ خلافت عطا فرمایا اور آپ کو مرید کرنے کی اجازت عطا فرمائی۔ بار خلافت کندھوں پر آنے سے آپ کی شخصیت میں ایک نکھار آگیا۔
حضرت پیر سید حیدر علی شاہ جلال پوری سراپا عجز و انکسار تھے۔ غرو ر و تکبر سے کوسوں دور رہتے تھے۔ اخلاق عالیہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے خود پسندی کا شکار نہ تھے۔وہ ایک نرم دل اور محبت و شفقت بھرا دل رکھتے تھے۔ غربا و مساکین کی دلجوئی اورمحبت ان کا شیوہ تھا۔ اسوۃ رسولؐ کے مطابق اپنے علاقے اور اردگ گرد کے لوگوں سے حد درجہ محبت فرماتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے میں سرگرم عمل رہتے۔ اعمال میں نہایت محتاط اور شریعت کے احکامات کی پاسداری کرے والی شخصیت تھے۔خلاف شروع امور سے اجتناب کرتے اور اپنے مریدین کو بھی شریعت کی پابندی کی تعلقین کرتے۔ حضرت پیر سید علی حیدر شاہ جلال پوری اپنے مریدین اور متعلقین کو نماز کی پابندی کی تلقین کرتے اور نماز کو تمام عبادات کی جڑ قرار دیتے۔آپ حد درجہ وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ آپ دراز قد، خوبصورت آنکھیں ، لمبی زلفیں سر پر کلاہ یا ترکی ٹوپی، موسم سرما میں موسم کے مطابق گرم کپڑے جبکہ گرمیوں میں ململ کا کرتہ زیب تن کرتے۔پاؤں میں سادہ جوتاپہنتے ا ور انتہائی سادگی کے ساتھ اپنے چاہنے والوں میں گھل مل جاتے۔
بیعت و خلافت کے بعد کثیر تعداد میں خلق خدا آپ کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئی۔علاقہ کے کئی بڑے زمیندار، جید علماء وقت آپ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے۔ جمادی الثانی 7جولائی1907کو آپ نے انتقال فرمایااور واصل الی الحق ہوئے جلال پور شریف میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔ آپ کی عظمت شان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شاعر مشرق علامہ اقبال اور برصغیر کے ایک قادر الکلام شاعر اکبر الہ آبادی نے آپ کی تاریخ وفات پر قطعات تاریخ وصال لکھے۔ حضرت علامہ اقبال کی لکھا گیا قطعہ تاریخ وصال پیش خدمت ہے۔
ہر کہ بر حاک مزار پیر حیدر شاہ رفت
تربت او راامیں جلوہ ہائے طور گفت
ہاتف ازگردوں رسید وخاک اورا بوسہ داد
گفتمش سال وفات اوبگو’’ مغفور‘‘ گفت۔
لفظ مغفور سے (1326ھجری) آپ کا سن وصال نکلتا ہے۔
اکبر الہ آبادی کا لکھا گیا قطعہ تاریخ بھی پیش خدمت ہے
معرفت کی جس کو ہو دولت نصیب
پھر اسے کیا فکر مال و جاہ ہے
۔حضرت مرحوم تھے مرد خدا،
ان کا جو پیرو ہے حق آگاہ ہے ،
ان کی تاریخ وصال ازروئے درد
،انتقال پیر حیدر شاہ ہے
حضرت پیر سید غلام حیدر علی شاہ
Feb 21, 2020