اکیسویں فروری مادری زبانوں کو زندہ رکھنے اور پھلنے پھولنے میں حکومت اور لوگوں کے لئے یاد دہانی کا دن ہے۔ یونیسکو نے اس دن کو مادری زبانوں کے نام کرنے کا فیصلہ 17 نومبر 1999 ء کو کیا تھا۔ 21 فروری 2000ء سے یہ پوری دنیا میں باقاعدہ منایا جاتا ہے۔ اس دن ریلیاں، مذاکرے اور دیگر پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں اور صاحب اختیار کی توجہ مادری زبانوں کا احیاء کی جانب مبذول کرائی جاتی ہے۔ یہ اعلان بنگلہ دیش جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا کے طلباء کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہوا۔ اکیس فروری 1952ء کو ڈھاکہ یونیورسٹی، جگن ناتھ یونیورسٹی اور ڈھاکہ میڈیکل یونیورسٹی کے طلباء نے اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو قومی زبان بنانے کے مطالبے کے حق میں ریلی نکالی اور احتجاج کیا۔ پولیس نے حسب روایت گولیوں سے ان کا استقبال کیا اور یہ دن تاریخ کے ورق کو لہولہان کر گیا۔ یونیسکو نے 1999ء میں 21 فروری کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ یہ 21 فروری 2000ء سے پوری دنیا میں منایا جارہا ہے۔ یہ اعلان بنگالیوں(اس وقت کے مشرقی پاکستانیوں) کے ذریعے زبان کی تحریک کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ جب پاکستان 1947ء میں تشکیل دیا گیا تھا، اسے جغرافیائی طور پر دو الگ الگ حصوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں منقسم تھا۔یہ بات بھی درست ہے کہ دونوں حصے ثقافتی حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کی ثقافتیں گلدستے کی مانند ہیں یعنی ہیں تو وہ پھول مگر ان پھولوں کے رنگ جدا ہیں۔ 1948ء میں حکومت پاکستان نے اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار دیا تو اکثریتی صوبے نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ چونکہ آبادی کی اکثریت مشرقی پاکستان سے تھی اور ان کی مادری زبان بنگلہ تھی۔ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ کو بھی قومی زبان میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ سب سے پہلے مشرقی پاکستان سے دھریندر ناتھ دت نے 23 فروری 1948ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں اٹھایا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج کا پروگرام بنا تا کہ فیصلے کو بدلا جا سکے۔ 21 فروری 1952ء کو پولیس نے ریلیوں پر فائرنگ کی۔ کچھ طلباء ہلاک ہوگئے اور سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ بنگلہ دیش میں مادری زبان کے عالمی دن کو قومی تعطیل ہوتی ہے۔ اکیسویں فروری کو مادری زبان پرکا دن قرار دینے کی اس قرارداد کو کینیڈا کے وینکوور میں رہنے والے بنگالی رفیق الاسلام نے تجویز کیا تھا۔ انہوں نے 9 جنوری 1998ء کو کوفی عنان کو ایک خط لکھا جس میں ان سے بین الاقوامی مادری زبان کا عالمی دن منانے کے ذریعہ دنیا کی زبانوں کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے ایک قدم اٹھانے کو کہا تھا۔ لوگوں میں شعور بیدار ہوا۔ انھیں مادری زبان کی اہمیت کا علم ہونا شروع ہوا۔ انھیں احساس ہوا کہ زبانیں ہمارے ٹھوس اور ناقابل تسخیر ورثہ کے تحفظ اور ان کی ترقی کے سب سے طاقتور وسیلے ہیں۔ مادری زبان کو فروغ دینے کے تمام اقدامات نہ صرف لسانی تنوع اور کثیر اللسانی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرینگے بلکہ پوری دنیا میں لسانی اور ثقافتی روایات کے بارے میں بھرپور آگاہی پیدا کرنے اور تفہیم، رواداری اور مکالمے پر مبنی یکجہتی کے جذبے کو فروغ دینے میں مدد فراہم کریں گے۔ آج اتنے برس گزرنے کے بعد بھی ہم نے مادری زبانوں کو اپنانے کی سعی نہیں کی۔دوسرے صوبوں میں تو پھر بھی کچھ حالات بہتر ہیں مگر پنجاب میں صورت حال ابتر ہوچکی ہے۔مادری زبان سے دوری کے باعث ثقافتی قدروں اور ورثے سے بھی مسلسل بے نیاز برتی جارہی ہے۔خدارا اس اکثریتی زبان کے بولنے والوں کواس نہج پر نہ لائیں کہ وہ احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کردیں کیونکہ آج کا نوجوان زیادہ باشعور ہے۔پنجاب کا نوجوان اپنی شناخت پر لگے داغ دھونے کے لئے بے قرار ہے۔ابھی وہ مکالمے اور نعرے تک ہے۔ اس کی بات سن لیجئے اور اس غلطی کا تدارک کر دیجئے جو گزشتہ حکومتوں نے روا رکھی اور پنجابی زبان کا استحصال کیا۔ حکومت سے درخواست ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں پنجابی کا مضمون پرائمری سے لازمی کرے۔ تمام کالجوں اور سکولوں میں پنجابی کا مضمون پڑھایا جائے۔ صوفی شاعروں کا کلام نصاب میں شامل کیا جائے۔ امید ہے وزیراعظم عمران خان اور وزیر تعلیم شفقت محمود اس جانب توجہ دیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو قوم ان کی احسان مند رہے گی۔