دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو ہر چیز کا روشن پہلو رکھتے اور دیکھتے ہیں وہ ہر کام اس یقین کے ساتھ شروع کرتے ہیں کہ اس میں ضرور کامیاب ہونگے وہ درپیش مشکلات اور عارضی رکاوٹوں کے ساتھ بہادرانہ جنگ لڑتے ہیں اور بلاآخر کامیابی ان کے قدم چومتی ہے قانون قدرت ہمیشہ اس نتیجے کی تائید کرتا چلا آرہا ہے اللہ تعالیٰ بھی انہی لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیںجبکہ دوسری قسم ان کمزور لوگوں پرمشتمل ہوتے ہیں جو کام شروع کرنے سے پہلے کئی بار سوچتے ہیں کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے ؟ایک دفعہ ناکامی کا تجربہ ان کے پیش منظر رہتا ہے اور بلاآخر انہی کمزوریوں کی بدولت وہ ہمیشہ ناکام رہتے ہیں اس تناظر میں انورکمال خان مروت مرحوم کی سوانح حیات پر نظر ڈالیں جنہوں نے اپنے سیاسی کیریئر میںاپنے اور اپنے بچوں کیلئے کچھ نہیںبنایا جنہوں نے اپنی سفیدپوشی کا برہم قائم رکھنے کیلئے جائیداد فروخت کر کے گزارا کیا جن کے بچے آج بھی نوکریاںکر کے اپنے خاندان کی کفالت کر رہے ہیں اصولوں کے پکے منافقت اور جھوٹ پرلعنت بھیجتے تھے ان اوصاف کی بدولت ان کے سیاسی مخالفین نے بھی کبھی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی ۔مروت قبیلے کے سپوت انورکمال خان مروت 19نومبر1947 کو بنوں میں حبیب اللہ خان کے گھر پیدا ہوئے ان کے والد حبیب اللہ خان سینیٹ کے پہلے چیئرمین اور قائمقام صدرپاکستان رہ چکے ہیں ۔1964میں سینٹ میری اکیڈمی راولپنڈی سے میٹرک کے بعد انورکمال مروت نے گومل ڈگری کالج ڈی آئی خان سے گریجویشن کی اور پشاورلاء کالج سے قانون کی ڈگری ایل ایل بی حاصل کی زمانہ طالب علمی کے دوران 1967میں گومل ڈگری کالج میں پختون سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی رہے ضلع لکی مروت کے نامور سیاسی گھرانے کے چشم و چراغ کے طورپر سیاسی زندگی کے آغاز کے ساتھ ہی 1980میں وہ بلا مقابل میونسل کمیٹی لکی مروت کے چیئرمین منتخب ہو گئے اور جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کے دور 1981میں مجلس شوریٰ کے صوبائی کونسل مقررکئے گئے اور اس عہدے پر 1985تک فائز رہے 1988 میں انہوں نے آئی جی آئی کے ٹکٹ پر عام انتخابات میں حصہ لیا اور ایم پی اے منتخب ہوئے 1990کے عام انتخابات میں مشال خان نے الیکشن میں انورکمال مروت کو شکست دی تاہم 1993 میں وہ اپنے سیاسی حریف مشال خان سے اتحادکر کے ایک بارپھر لیگ(ن)کے ٹکٹ پر رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور کچھ ماہ کیلئے وزیراعلیٰ پیر صابر شاہ کی حکومت میں وزیر منصوبہ بندی و ترقیات رہے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں پیر صابر شاہ حکومت کے خاتمے کے بعد 1994 میں وہ سرحد اسمبلی میں ڈپٹی اپوزیشن لیڈر بنے 1997میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے 2002کے عام انتخابات میں وہ ایک بار پھر مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے اور سرحد اسمبلی میں مسلم لیگ(ن)کے پارلیمانی لیڈر بنے ۔پرویز مشرف کی آمریت کے خلاف پانچ سال اسمبلی کے اندر اور باہر للکارتے رہے اصولوں پر سودے بازی نہیںکی اور یہ وہ مشکل ترین وقت تھا کہ جب محمد نواز شریف کے قریبی ساتھی بھی ان کا ساتھ چھوڑ کر ڈکٹیٹرپرویزمشرف کی گود میں بیٹھ گئے لیکن مروت قبیلے کے سپوت انورکمال خان مروت نے ہر قسم کے دبائو ،لالچ و مراعات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے اپنے قائد محمدنواز شریف کا ساتھ دیا اور صوبے میں مسلم لیگ(ن)کو زندہ رکھا اور موت کی آغوش تک مسلم لیگ کے ساتھ وفاداری نبھائی۔2008ء کے الیکشن میں وہ اپنے دیرینہ رفیق کار سابقہ ایم این اے حاجی محمد کبیر خان کے بھائی منورخان مروت سے صرف چند سو ووٹ سے ہار گئے ۔جب 2006میں بھٹنی قبائل نے مروت قبیلے کی دوخواتین کو اغواء کر کے پشتون غیرت کوللکارا تھا تو انورکمال خان مروت خود اپنے قومی لشکر کی کمانڈ کر رہے تھے اس وقت کے گورنر سرحد عارف بنگش کے دبائو اور آپریشن کرنے کے الٹی میٹم کو مسترد کر دیا اور اغواء کاروں کے خلاف قومی لشکر کشی کی جب وہ مستی خیل سے آگے پہاڑوں پر مورچہ زن ہوئے تو مقامی ناظم نے انہیں کہا کہ خان آگے جائوگے تو موت آپ کی منتظر ہو گی انہوں نے بڑ ی دلیری سے جواب دیا کہ میں نے سات دن سے کپڑے نہیں بدلے پیچھے ہٹ کر کس منہ سے جائوں زندگی تو آنی جانی شے ہے وہ دو ماہ تک پہاڑی میں مورچہ زن رہے فروری 2011 میں انورکمال خان مروت کو مسلم لیگ کو قبائلی علاقوں میں فعال اور منظم جماعت بنانے کیلئے کوارڈی نیٹر مقرر کیاگیا فاٹا کے فرسودہ نظام ایف سی آر کے خاتمے اور اصلاحات کیلئے بھرپور کردار ادا کیا اور 64سال بعد قبائلی عوام کو سیاسی آزادی ملنے میں مرحوم کا اہم تھا فاٹا میں پیسوں کی چمک کی سیاست کاخاتمہ ان کا خواب تھا وہ فاٹا کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق دینے کے حق میں تھے لیکن اچانک موت نے پورے صوبے کی طرح قبائلی عوام کو بھی غمزدہ کردیا اور وہ ایک اچھے ،باکردار،مخلص اور اصول پسند لیڈرسے محروم ہو گئے مرحوم کا خلاء کبھی پر نہیںہوگا ایسی شخصیات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں مسلم لیگ(ن)فاٹا نے انورکمال خان مروت کی وفات پر تین روزہ سوگ منایا اور ان کی مغفرت کیلئے ہر قبائلی ایجنسی میں ختم قرآن اور اجتماعی دعا کی گئی صداقت ،شرافت،ملنساری ،قناعت،طبیعت میں سادگی آپ کی زندگی کے قیمتی اثاثے تھے کیونکہ مرحوم کاخاندان ضلع لکی مروت کے بڑے خوانین میں سے تھا لیکن گھر کے دروازے ہر حاجت مند،مظلوم اور پارٹی ورکروں کیلئے کھلے تھے جو بات کرتے اسے پورا کرتھے راقم کا مرحوم کے ساتھ تعلق گزشتہ سولہ سالوں سے تھا ان میں جواوصاف تھے وہ بہت کم لیڈروں میں پائے جاتے ہیں وعدے کے پکے تھے صحیح بات ہرکسی کے منہ پر کہتے تھے اسی وجہ سے ہر آدمی ان کا گرویدہ بن گیا ۔مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے اور ظالم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بن جاتے حال ہی میں انور کمال خان مروت کو مسلم لیگ(ن)کا صوبائی سینئر نائب صدربنادیا گیا اس سے پہلے مرحوم مسلم لیگ(ن)کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے تھے ۔(مرحوم) نے شدت پسندوں کی کاروائی روکنے کیلئے اپنی قوم کو متحد کیاتھا ان کی موجودگی میں نہ صرف مروت قوم بلکہ ضلع لکی مروت کی سرزمین پر بسنے والے دیگر اقوام کے افراد کو ایک طرح تحفظ کا احساس دلاتی تھی یہی وجہ ہے کہ لوگ صحیح معنوں میں انہیںقائد تسلیم کرتے تھے اور ان پر فخر کرتے تھے تحریک نجات کے دوران 1994 میں جب انورکمال خان مروت گرفتار ہوئے اورڈی آئی خان جیل میں پابند سلاسل کیاگیا تو انہیں پہلی مرتبہ جیل میں دل کا دورہ پڑا ۔13 فروری2012 کو ہفتے کے روز پی سی ہوٹل پشاورمیں ایک سیمینار میں شریک تھے کہ دل کا دورہ پڑا انہیں قریبی ہسپتال لیڈی ریڈنگ منتقل کیا گیا ۔ اور وہ خالق حقیقی سے جا ملے ۔13فروری2020 کوم آٹھویں برسی منائی گئی ہے ۔ پسماندگان میں تین بیٹے ناصر کمال مروت ایڈوکیٹ،منصورکمال مروت اور تیمورکمال مروت چھوڑے ہیں ۔ بیٹوں نے اپنے والد مرحوم کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے عوامی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے ۔
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فناہوتے نہیں
وہ حقیقت میں ہم سے جدا ہوتے نہیں