خواتین اوراستحکام خاندان 

 ’’ استحکام خاندان میں خواتین کا کردار‘‘ میں سب سے پہلے ماں کا ذکر کریں گے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ والدین کا فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین مسلمان  والدین بنانے پہ توجہ رکھیں گے۔ مرد و عورت کی بحیثیت انسان برابر ذمہ داری ہے مگر صنف کے لحاظ سے دونوں کی جدا ذمہ داریاں بھی ہیں۔ایک ماں ہی اپنی بیٹی کو بہترین انداز میں تربیت کر سکتی ہے اور بیٹے کے مزاج کو مرد ہی سمجھ سکتا ہے۔اس وقت ہم خواتین کی ذمہ داریوں پہ بات کریں گے۔بیٹی کی پیدائش سے پہلے ہی ماں کو اس کی تربیت شروع کر دینی چاہئے کیونکہ بحیثیت بیوی ، بہو اور ماں کے ایک عورت لمحہ با لمحہ اپنی بیٹی کیلئے مثال بن رہی ہوتی ہے۔آج بہو لانے کے بارے میں اور بہو کے اندازفکر پہ بات کر لیتے ہیں۔ کیونکہ استحکام خاندان میں ساس اور بہو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خواتین جب بہو لانے کا سوچتی ہیں تو وہ لڑکی کی ماں کو پرکھتی ہیں۔ ماں اگر سسرال والوں میں ہر دلعزیز ہے خدمت گزار ہے تو اس کی بیٹی لانے کے امکانات مضبوط ہوجاتے ہیں۔اچھی توقعات وابستہ کرنا احسن عمل ہے لیکن رشتہ طے کرنے اور عملاً نبھانے میں مشرق مغرب کا فرق ہو سکتا ہے۔بہو کے بارے میں امکانات کے سارے پہلو ذہن میں رکھنے چاہئیں۔ رشتہ وہیں ہوگا جہاں مقدر لکھا جا چکا ہے اب صرف امکانات اورتوقعات میں توازن رکھنا ہے۔ اور اس بات کو ذہن میں رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض کیلئے امتحان کا ذریعہ بنایا ہے تاکہ وہ جانچے کہ دونوں میں سے کس میں صبر و برداشت کی صفت زیادہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔بہت سی خواتین اس بات پہ حیران و پریشاں ہیں کہ ہم نے  ایک سلجھی ہوئی باشعور ، خدمت گزار ماں کی تعلیم یافتہ، دین دار بیٹی کا انتخاب کیا مگر بہت مایوسی ہوئی۔ بلکہ کچھ خواتین خود بھی اپنی تربیت یافتہ بیٹی کے سسرال کے ساتھ ناروا رویے پہ نالاں ہیں ۔لیکن  یہ کیا معمہ ہے جبکہ ساس کی طرف سے بھی زیادتی کا امکان نہیں ہوتا۔کیا کسی  نے سوچا کہ  ایک اچھی بہو کہلانے کیلئے اس نے تن من دھن لگایا مگر کس لئے؟ لوگوں سے تعریف سننے کے لیے، گھر کی دوسری بہوؤں کو نیچا دکھانے کے لئے یا اپنے آپ کو نمایاں کرنے کے لیے، کوئی لاکھ اپنے دل کو تسلیاں دیتارہے کہ ہم تو اللہ تعالیٰ کیلئے بھلائیاں کر رہے ہیں مگر  نیتوں کے پوشیدہ بھید صرف اورصرف  اللہ ہی جانتا ہے۔ایسی  خاتون اپنے سسرال میں ہر دلعزیز  تو ہوجاتی ہے مگر خدمت گزاری کی تکالیف کے تذکرے اور جواباً حسب توقع نہ ملنے کی شکایتیں  اوائل عمر سے بیٹی کے کانوں میں پڑتی ہیں تو وہ اپنے لئے کچھ اور لائحہ عمل بناتی ہے۔ وہ اپنی ماں کو مظلوم سمجھتی ہے اور جب وہ شعوری عمر کو پہنچتی ہے تو ماں کی سہیلی اور ہم راز بن جاتی ہے۔ اتنے سارے اہم رشتوں کا تقاضا یہ بنتا ہے کہ بیٹی ماں کو باور کروائے کہ آپ کو چاہئے تھا کہ سسرال کو حدود میں رکھتیں۔ اور لاشعوری طور پہ وہ بیٹی اپنے سسرال کو حدود میں رکھنے کا ذہن بنا لیتی ہے۔ اور وہ اپنی ماں کے تجربے سے یہی سیکھتی ہے۔ اور وہ اس کو اپنے لیے جائز سمجھتی ہے کہ ماں کی طرح اپنی زندگی خراب نہیں کرنی  اور بیٹی قرابت داروں میں دی جاتی ہے تو وہ اپنی ماں کی خدمت گزاری  میں اٹھائی ہوئی تکالیف کو سنانے پہ مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ اس نے تو ماں کی محبت میں دل کے پھپھولے پھوڑنے ہی ہیں۔اندازہ کیا جا سکتا ہے خاندان میں اس عمل اور ردعمل سے کتنی شخصیات مسخ ہوتی ہوں گی۔تو جو بات سمجھانے اور سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ نیکی کا پھل نیت کے مطابق  ملتا ہے۔ ماں نے نا سمجھی میں تربیت کے درخت کو جو نیت کا پانی دیا اس درخت کی دوسرے گھر  پیوند کاری ہوئی تو کڑوے ذائقے کے پھل اترے ۔ ساری ماؤں کو غور کرنا ہے کہ وہ  لا شعوری طور پر نیکی کا کیا تصور اپنے عمل سے بیٹی کی شخصیت میں ڈال رہی ہیں؟ تحمل، صبر و ضبط کی کیا پہچان دے رہی ہیں؟ اور نیکی کرکے اسے محفوظ رکھنے کا کیا گر سکھا رہی ہیں ؟ بحیثیت ساس کے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رشتے کتنے ہی جذباتی کیوں نہ ہوں ان کی نوعیت ، وقت اور عمر کے ساتھ بدلتی جاتی ہے۔ماؤں کو اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ کیا دودھ پیتے بچے اور سکول جاتے بچے کا ماں سے تعلق اور اس  کی محبت کی نوعیت  ایک جیسی ہوتی ہے؟ کیا نو عمری اور جوانی میں وقت اور تعلق داری کی تقسیم ایک جیسی رہتی ہے؟ کیا ایک وقت وہ نہیں آتا کہ بیٹے کو اپنے دوست دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ پیارے ہوتے ہیں۔  اور ماں بیٹے کی محبت میں اس کے دوستوں پہ بھی واری صدقے جاتی ہے۔کیا تعلیم ، روزگار کے سلسلے بیٹوں کو دنوں ہفتوں بلکہ مہینوں سالوں   الجھا کر نہیں رکھتے ؟جب ایک سمجھدار ماں اپنے آپ کو ان سب مراحل میں جذباتی ہوکر بیٹے کا مستقبل تباہ نہیں کرتی تو پھر سوچنا ہوگا کہ اگربڑے شوق اور محبت سے بیٹے کا گھر بسایا ہے تو اس کی ضروریات جو بیوی پوری کر سکتی ہے تو وہی کرے گی اور صنفی تقاضے بہت منہ زور ہوتے ہیں۔ بیٹے کی شادی کر کے کچھ عرصہ  اسے اپنی شریک حیات کیلئے مختص کر دینا چاہئے۔ بیٹا وہ ماں کا ہی ہے اور رہے گا۔ جب وہ اپنی معمول  کی  زندگی کی طرف واپس آئے گا تو اسے ماں کی اعلیٰ ظرفی پہ پیار آئے گا۔ محبت کبھی زبردستی ، عزت نفس مجروح کرکے حاصل نہیں ہوتی۔ جو خواتین  بہو سے اور  بہو ساس سے لامتناہی غیر فطری  توقعات وابستہ کر لیتی ہیں وہ نا سمجھی کا ثبوت دیتی ہیں۔ جب توقعات ٹوٹتی ہیں تو   ہر شخصیت مسخ ہو جاتی ہے۔ مسخ شدہ شخصیات سے خاندان میں استحکام کیسے لایا جا سکتا ہے؟ ساس اور بہو کو غیر مشروط طور پہ اپنے اپنے مقام کی حیثیت سے دینے کی بابت سوچنا چاہئے کیونکہ استحکام خاندان کی اساس لینے سے زیادہ دینے کی کوشش پہ قائم ہے۔ جب سب دینے میں سبقت لے جانے والے بنیں گے تو شکایت کہاں رہے گی؟ کوئی بھی تعلق، رشتہ داری اور ذمہ داری اللہ رب العزت کی تائید ،نصرت اور حمایت کے بغیر مثبت انداز فکر کے ساتھ نہیں نبھائی جا سکتی ۔

ای پیپر دی نیشن