رواں ماہ چھ فروری کو عشق ومستی کا وہ چراغ بجھ گیا جس کی گھن گرج کا زمانہ معترف تھا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ؒکے صاحب زادے مجلس احراء کے امیر مولانا سید عطاء المہی من بخاری 77 بہاریں دیکھ کر رخصت ہوئے ۔سات فروری کو ملتان کے قاسم باغ میں جنازہ ادا ہوا‘ نماز جنازہ میں عقیدت و ارادت مندوں کا جم غفیر دیکھ کر اندازہ لگانا آسان تھا کہ قوم عاشقانان رسول کو کس طرح سروں کا تاج بناتی ہے اللہ پاک غریق رحمت کرے آمین۔ سید عطاء المہی من بخاری نے اپنے اجداد اور اسلاف کی جلائی شمع کو روشن رکھا‘ انہوں نے فروغ عشق نبیؐ اور ردقادیانت کے لیے جو خدمات انجام دیں ان پر فخروانبساط کے کئی مینار تعمیر کئے جاسکتے ہیں… ہمارے دادا حکیم سید راؤ بخاری کا شمارسہارن پور کے ممتاز دانشوروں اور علماء کرام میں ہوا کرتا تھا۔ وہ مجلس احرار کے ان اکابرین میں شامل تھے جن کے رائے نظر انداز نہیں کی جاتی تھی۔ دادا جان عطاء اللہ بخاری کے دوستوں میں سے تھے، سہارنپور میں مجلس احرارکی سرگرمیوں میں دادا جان پیش پیش رہتے۔ ایک مرتبہ جبل پور( بھارت ) میں مجلس احرار کا جلسہ دادا محترم کی زیر صدارت ہوا جس پر انگریز پولیس نے دھاوا بول دیا۔ خوب لاٹھی چارج ہوا مگر دادا محترم آخری وقت تک جلسہ گاہ میں موجود رہے۔ انہوں نے لاٹھیاں کھا کریہ پیغام دیا کہ لیڈر ایسے ہوتے ہیں! دادا جان کی رحلت کے وقت میرے والد (حکیم سید سروسہارن پوری) چھ سات برس کے تھے۔ دادا جان کے بعد سہارن پور کے جلسہ میں میرے والد اور چچا جان (سعود ساحر) شریک ہوا کرتے۔ ایک جلسہ میں والد محترم کو تلاوت کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ننھے قاری کی بہت تعریف کی ‘ حوصلہ دیا اور پیٹھ پر جو تھپکی دی اس محبت وحوصلہ نے والد محترم کو آگے بڑھنے میں زیادہ مدد دی۔ 14 اگست 1947 ء کی مبارک سعاعتوں اور سعادتوں میرے والد اور ان کا خاندان سہارنپور سے ہجرت کرکے کرتارپورہ راولپنڈی چلاآیا عطاء اللہ شاہ بخاری جب دورہ راولپنڈی پر آتے تو والد محترم سے ملاقات ضرور کرتے۔حضرت پیر جی مولانا سید عطاء المہی من بخاری حضرت امیر شریعت کے سب سے چھوٹے فرزند اور ان کی آخری نشانی تھے انہیں اپنے عظیم والد کی شفقتوں سے بھی وافر حصہ ملا، بچپن میں ان کے والد مکرم نے انہیں ’’پیرجی‘‘ کہہ کر پکارا جو آگے چل کر ان کی شخصیت کی پہچان بن گیا حضرت پیر جی نے مختلف مدارس میں دینی تعلیم حاصل کی مگر طیبعی رحجان کی بدولت بطور خاص فن قرآت میں اپنے وقت کے عظیم قراء سے کسب فیض کیا۔ حضرت امیر شریعت کی رحلت کے بعد اپنے بڑے بھائیوں کی سرپرستی میں اپنے والد ماجد کے واحد ترکہ یعنی مجلس احراء اسلام کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ برسوں مدینہ منورہ میں قیام رہا حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا کی صحبتوں اور محبتوں سے خاص حصہ پایا۔جب اپنے برادر بزرگ حضرت مولانا سید عطاء الحسن بخاری کے بعد مجلس احراء اسلام کی عمارت ان کے سپرد ہوئی تو انہوں نے احراء کے بنیادی اہداف کے لیے زندگی کے بہترین ماہ وسال صرف کر دئیے اور کل عمری سے تادم آ خر وہ سراپائے احرا رہے۔ قیدوبندگی صعوبتیں جھیلیں اپنوں پرائیوں کی تنگ زنی برداشت کی، دشمنوں کے حملوں کا نشانہ۔ بنے بیماری وعلالت کے مراحل سے بھی گزر ے لیکن اپنے آباء کے طریقہ میں مصائب کو خاطر میں نہ لائے اور استقامت کے پہاڑ بن کر جرأت وشجاعت کی ان مٹ مثالیں ثبت کرتے رہے عطاء اللہ بخاریؒ اور حکیم سرو سہارن پوریؒ کی محبت اور عقیدت کا سلسلہ اگلی نسل تک منتقل ہوا۔ ماشاء اللہ تیسری نسل اس تعلق کو نبھا رہی ہے ۔ سید عطاء المہی من بخاری سے میری ملاقات تنظیم اسلامی کی طرف سے سجائی گئی بین المسلمین کانفرنس واہ کینٹ میں ہوئی۔ میں اپنی تنظیم ( تحریک اسلامی )کی نمائندگی کے لیے موجود تھا جب مہمان شخصیت کو والد مرحوم کا تعارف کروایا تو وہ گلے مل کر بہت مسرور ہوئے۔ کانفرنس کے بعد ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ جاری رہا۔ چچا سعود ساحر کی کتاب تحفظ ختم نبوت کے دیباچے میں سید کفیل شاہ بخاری کا پورا مضمون موجود ہے۔ چچا مرحوم نے اپنی کتاب کفیل شاہ کو بھی پیش کی تھی! مجھے یاد ہے ایک مرتبہ جامعہ اسلامیہ صدر کینٹ کامران مارکیٹ میں ڈاکٹر صاحب خطبہ جمعۃ المبارک دے رہے تھے میں بھی وہاں اپنے چچا کے ساتھ موجود تھا۔ ڈاکٹر عتیق الرحمان میرے ہم جماعت تھے انہوں نے پرتباک استقبال کیا اور شرکاء کو عطاء اللہ شاہ بخاری اور حکیم سروسہانپوری کی ملی خدمات سے آگاہ بھی کیا۔سید عطاء اللہ شاہ بخاری اپنے صاحب زادے سید عطاء المہی من بخاری کو پیر جی کہتے تھے دراصل یہ لقب اس پیش گوئی کا حصہ تھا جس میں پوشیدہ تھا کہ آنے والے وقت میں پیر جی تحفظ ختم نبوت کے عدیم المثال مشن کے ساتھ ہر مقام پر دیکھے جائیں گے۔ اور پھر آسمان نے دیکھا کہ پیر جی واقعی اپنے عظیم والد کا نقش ثابت ہوئے ۔انہیں فن خطابت اور فن قرآت میں ملکہ حاصل تھا۔ اپنے والد کی طرح خوش الحان تھے جب تلاوت فرماتے تو لگتا ہے کہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری جلوہ گر ہیں۔ گزشتہ سال مارچ 2020ء (11 اور 12 ربیع الاول) میں چنیوٹ کی عظیم الشان سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں شدید علالت کے باوجود ایمبولینس کے ذریعے شریک ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارا جینا اور مرنا تحفظ ختم نبوت ہے بیماری ہمارا راستہ نہیں رو ک سکتی۔
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ بطحا ؐکی حرمت پر
خدا شاہد ہے میرا ایماں کامل ہو نہیں سکتا