جرمن سرمایہ کاروں کیساتھ شراکت داری ممکن ہے

کراچی ( کامرس رپورٹر)جرمنی کے قونصل جنرل ہولگر زیگلر نے کہا ہے کہ اگرچہ پاکستانی برآمد کنندگان زیادہ تر ٹیکسٹائل، لیدر چمڑے اور کچھ دیگر مصنوعات جرمنی بھیج رہے ہیں لیکن انہیں جرمنی اور دیگر ملکوںکو زیادہ برآمدات کے لیے ہیومن کیپٹل کا اچھا استعمال کرنا ہوگا اور صنعتوں کی ترقی و اعلیٰ معیاری ویلیو ایڈیڈ مصنوعات تیار کرنا ہوگی۔ یہ بات انہوں نے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی) کے دورے کے موقع پر ایک اجلاس میں تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہی۔ اجلاس میں کے سی سی آئی کے صدر ایم شارق وہرہ، سینئر نائب صدر ثاقب گڈلک، نائب صدر شمس الاسلام خان، کے سی سی آئی کی ڈپلومیٹک مشنز وایمبیسیز لائژن سب کمیٹی کے چیئرمین جنید منڈیا و دیگربھی شرکت تھے۔جرمن قونصل جنرل نے اس بات پر زور دیاکہ پاکستانی برآمد کنندگان کو برآمدات کے لیے خام مال یا سیمی فنشڈ گڈز کی تیاری تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ وہ صرف ٹیکسٹائل سیکٹر ہی نہیں بلکہ دوسرے شعبوں کی بھی پوری ویلیو چین کی تمام اقسام کو تیار کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ پاکستانی برآمدکنندگان کو اس خطے کا جائزہ لیناچاہیے کہ کس طرح بنگلہ دیش اور دیگر حریف جرمنی و دیگر ملکوں کو اپنی برآمدات میں بہتری لائے۔انہوں نے بتایا کہ کراچی میں بطور قونصل جنرل کی ذمہ داری سنبھالنے سے قبل انہوں نے چار سال تک جدہ میں قونصل جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور اس سے پہلے وہ برلن میں وزارت خارجہ کی وزارت میں ایکسپورٹ پروموشن کے سربراہ تھے اور پھر انہوں نے بجائے اس کے کہ وہ کسی دوسرے شہر یا ملک میں تعیناتی کوترجیح دیتے جہاں جرمنی کی تجارت پہلے سے ہی ایک مستحکم سطح پر ہے اس پورٹ سٹی کی معاشی اہمیت کی وجہ سے اور اس شہر کی جرمنی کے ساتھ دوطرفہ تجارت کی ترقی کی صلاحیت کے سبب کراچی میں تعیناتی کو ترجیح دی جہاں امکانات کے ساتھ ساتھ مشکلات بھی بہت زیادہ ہیں تاکہ وہ ان تمام رکاوٹوں کو دور کرنے میں ایک سفارتکار کی حیثیت سے کردار ادا کرسکیں۔انہوں نے جرمنی کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مستحکم کرنے کی خواہشمند کراچی کی تاجر برادری کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہاکہ ہم خود کو ان لوگوں کے لیے سہولت کار کے طور پر دیکھتے ہیں جو ملک کو ترقی دیتے ہیں۔قبل ازیں صدر کے سی سی آئی شارق وہرا نے جرمنی کے انتہائی ترقی یافتہ زرعی و آٹوموٹیو سیکٹر کو اجاگر کرتے ہوئے ان دونوں شعبوں میں مشترکہ منصوبوں کے ذریعے تعاون کی ضرورت پر زور دیا چونکہ جرمنی میں کاشت کی جانے والی بیشتر زرعی مصنوعات پاکستان میں بھی بوئی جاتی ہیں جبکہ یہاں کے آٹوموٹیو سیکٹر میں بھی بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے لہٰذا جرمنی کی تاجربرادری کو آگے آنا چاہیے۔ اور تعلقات کو بہتر بنانے نیز پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنا ہوں گے اگرچہ جرمنی پاکستان کو بہت کچھ پیش کرنے کی اہلیت رکھتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اس پیشکش سے فائدہ اٹھا نہیں سکے جس پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن