ناصر بی اے کا طالب علم ہے، وہ بیچارہ مطالعہ پاکستان کا پیپر دینے گیا، حیف راستے میں وین خراب ہوگئی، ستم بالائے ستم وہ اپنی رول نمبر سلپ بھی گھر بھول گیا اس کا علم اس کو کمرہ امتحان کے باہر ہوا۔ وہ وین کی خرابی کی وجہ سے لگ بھگ چالیس منٹ تاخیر سے پہنچا۔ اس نے سکیورٹی گارڈ کو اپنی کہانی سنائی لیکن گارڈ اپنی جگہ مجبور تھا اس کوقواعد وضوابط کیمطابق کمرہ امتحان میںجانے کی اجازت نہ دی ناصر نے واویلا مچادیا، بات ناظم امتحان تک پہنچی۔تو انہوں نے اُس کو کمرہ امتحان میںجانے کی اجازت نہ دی۔ وہ بوجھل قدموں سے امتحانی مرکز سے باہر آگیا اور گھر کی طرف چلا گیا کیونکہ اسے قوانین کیمطابق اب دوبارہ امتحان دینا ہوگالیکن اس کو وقت کی ناقدری اور منظم نہ ہونے کی کڑی سزا ملی تھی یہ کہانی صرف ناصر کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے ہر دوسرے شخص کی ہے جو وقت کی قدر اور نظم وضبط سے ناواقف ہے اور پھر کہیںنہ کہیں کسی نہ کسی جگہ نقصان بھی برداشت کرتا ہے لیکن اپنی روش نہیں بدلتا۔فارسی میں ایک مشہور مقولہ ہے ’’وقت از دست رفتہ و تیر از کمان جستہ باز یناید‘‘یعنی’’ہاتھ سے گیا وقت اور کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتے‘‘ بقول شاعروقت کا کام ہے چلتے رہنا یہ رکنے نہ پائے /جو وقت نکل گیا ہاتھ سے وہ پھر واپس نہ آئے۔’’نظم وضبط‘‘اور وقت کی پابندی سے کسی طور انکار ممکن نہیں ہے۔ جہاں پر نظم نہیں وہاں افراتفری اور غلط نتائج ہی نظر آئینگے۔ دنیا کا ہر کام کسی نہ کسی ضابطے یا قاعدے کے تحت ہوتا ہے۔ یہ زمیں و آسمان، یہ چاند،ستارے اور سورج کس نظام کے تحت کام کررہے ہیں؟ یہ سب کسی قاعدے یا قانون کے تابع رہ کر چل رہے ہیں۔ سورج کی گرمی، اسکی چمک، چاند کی دمک، لیل و نہار کا گھٹنا، موسموں کا تغیر و تبدل یہ سب کچھ ایک قانون کے تحت ہورہا ہے۔ سورج کا نکلنا،اس کا غروب ہونا، زمین کاگھومنااور رات دن کا پیدا ہونا۔ان سب کیلئے ایک وقت مقرر ہے۔ ان میں سے کوئی عمل اپنے وقت مقررہ سے ایک سکینڈ بھی ادھر ادھر نہیں ہوسکتا۔ یہ سب کسی قانون کی بدولت ہے۔دماغ کیلئے ایک ضابطہ مقرر ہے،وہ اسکے تحت کام کررہا ہے۔ جسم کے دوسرے اعضاء بھی ایک مقرر ہ قاعدے کے تحت ہی کام کرتے رہتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قانون اور ضابطہ ایک ایسی چیز ہے جس سے کوئی چیز باہر نہیں۔انسان کی بقاو ارتقاء کیلئے مخصوص ضابطوں کی پابندی لازم ہے۔ اسلام اپنے اندر ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے۔ اسلام ایک مکمل نظام حیات پیش کرتا ہے جس پر عمل کرکے قانون کے تحت زندگی بسر کرسکتے ہیں جو ہمیں راہ نجات پیش کرتا اور ہمارے لئے دین و دنیا کی بھلائی کا سبب بن سکتا ہے۔کوئی قول یا فعل انفرادی طور پر کیا جائے یا اجتماعی طور پر،اسکے نتائج معاشرے پر ضرور ظہور پذیر ہوں گے،تو ایسے میں ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دوسروں کے جذبات و احساسات کا احترام کریں اور ہمارا قول و فعل معاشرے کیلئے مفید ثابت ہو۔ اگر ہم معاشرے میں رہتے ہوئے کسی قانون اور ضابطے کا خیال نہیں کرتے تو اپنے لئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم ؒنے بھی اسی لئے قوم کو اتحاد، یقین اور نظم وضبط کا سبق دیا،جس قوم میں نظم و ضبط نہیں وہ جلد صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہوجاتی ہے۔ اسلام کا عروج بھی قومی نظم و ضبط،اتحاد و تنظیم کے طفیل ہوا۔ قومی اتحاد‘ یقین اور تنظیم کی بدولت مسلمانوں کی تھوڑی تعداد بھی اللہ کے فضل و کرم سے بڑی بڑے سلطنتوں کو فتح کرتی چلی گئی۔ یہ اتحاد اور نظم و ضبط کا ہی کرشمہ تھا کہ عرب قوم جو جہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی تمام اقوام عالم سے آگے نکل گئی۔ دنیا میں کوئی بھی معاشرہ ہو اگر وہاں نظم و ضبط کا سختی سے اطلاق نہیں ہوگا تو وہاں عدم استحکام،بے ترتیبی اور انتشار کا دورد ورہ ہوتا ہے۔ معاشرتی تنظیم کی تشکیل احسن طریقے سے نمو نہیں پا سکتی اور نہ ہی معاشرتی تہذیب پروان چڑھ سکتی ہے۔یہی صورتحال ملک میں موجود ہر اس ادارے کی بھی ہوتی ہے اگر ادارے میں تنظیم،ترتیب اور نظم وضبط ناپید ہو۔خاص کر ملک پاکستان کے تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط کا اطلاق اس لئے ضروری ہے کہ تعلیمی ادارے بڑے معاشرے میں چھوٹے معاشرے کے مترادف ہوتے ہیں۔نظم وضبط ہمیں باقاعدگی، ترتیب،احساس ذمہ داری اور ادب واحترام سکھاتا ہے۔فطرت کے تمام مظاہرمیں قدرت کی نشانیاں ہیں اور ان میں پایا جانیوالا نظم وضبط اور ڈسپلن دیکھنے کے قابل ہے۔ زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے مقصد اور ارادہ انتہائی اہم عناصر ہیں۔ انکے بغیر زندگی اوراس میں کی جانے والی جدو جہد، دونوں بے معنی ہوکررہ جاتی ہیں لیکن مقصد کے حصول اور ارادوں کی تکمیل کیلئے منصوبہ بندی اورنظم ونسق ان سے بھی کہیں بڑھ کراہم ہیں۔انسان کی عمر اور وقت تیزی سے گزر جانے والی چیزیں ہیں لیکن انسان اس بات کو محسوس نہیں کر پاتا کہ جو وقت ہاتھ سے چلاجائے وہ پلٹ کر نہیں آتا۔ وقت ایسی چیزہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔