مادری زبان کا المیہ اور ہماری بدنصیبی

زبانوں کی معدومیت کا احساس ہی آج اقوام عالم کو مادری زبان کا عالمی دن منانے کے نقطے پر لے آیا ہے۔آج دنیا بھر میں مادری زبانوں کے تحفظ کا دن منایا جارہا ہے،جس کی بنیادی وجہ ہی اپنی زبان سے محبت کرنا اور اسے محفوظ بنانے کے لیے کوشش کرنا ہے۔یہ دن بنگلہ دیش میں 21فروری 1952کو پولیس کی گولیوںکا نشانہ بننے والے ان طلبہ کی یاد میں منایا جاتا ہے جن کا تقاضا تھا کہ انہیں اپنی مادری زبان ترک کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔محققین کا کہنا ہے کہ سقوط ِ ڈھاکہ کی بنیاد بھی اپنی زبان ترک کرنے پر مجبور کرنے کا معاملہ ہی بنا تھا، جب قیام پاکستان کے محض چند ہی ماہ بعد بنگلہ زبان کو ڈاک ٹکٹوں اور سکوں سے ہٹا دیا گیا۔اس وقت جو زبانیں اختیار کی گئیں وہ انگریزی اور اردو تھیں،اس پر اہل دانش و فکر نے احتجاج شروع کیا اور بنگلہ ادب میں ایک بار پھر مزاحمت کا رنگ بھرتا دکھائی دیا۔اس حوالے سے روزنامہ ملت سب سے نمایاں رہا جس نے اپنے مقبول اداریئے میں لکھا کہ اپنی مادری زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان کو سرکاری تسلیم کرنا غلامی تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔اسی طرح روزنامہ آزادی نے اپنے اداریے میں لکھا کہ اگر اردو سرکاری زبان تسلیم کر لی جاتی ہے تو پھر جن لوگوں نے بنگلہ زبان میں تعلیم حاصل کی ہے وہ تو سرکاری ملازمت کیلئے کم اہل تصور کئے جائینگے۔ایسے دیگر مضامین نے ایسی فضا بنا دی کہ مشرقی پاکستان میں مزاحمت کی فضابن گئی۔ بنگالیوںکو خطرہ تھا کہ اگر اردو زبان کو نافذ کر دیا گیا تو ان کی آئندہ نسلیں اقلیت بن کر رہ جائیں گی جبکہ خود بنگلہ زبان کی بقا بھی خطرے میں ہوگی۔ جنوری 1948 کو رشٹرا واسا سنگرم پریساد نامی ایک تنظیم بنائی گئی جس کا مقصد بنگلہ زبان کا تحفظ تھا۔اگرچہ ابتدائی طور پر یہ تنظیم خفیہ رہی لیکن اس نے بنگلہ زبان کے حوالے سے تحریک کو منظم کیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس تنظیم کو تشکیل دینے میں مخالف قوتیں کس حد تک فعال رہیں،اصل معاملہ اس بنیادی حق کا تھا جسے غصب کرنے میں بعض ایسی قوتیں متحرک تھیں جو پاکستان کو متحد نہیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ 1948کے ابتدائی دنوں ہی میں بنگالی طلبہ اور سول سوسائٹی نے احتجاج کی کال دی اور مظاہرے شروع کردیے۔ 26جنوری 1952کو پاکستان کی اسمبلی میں اردو کو قومی زبان قرار دے دیا گیا۔اس فیصلے پر رد عمل کے طور پر جلوس نکالے گئے اور ہڑتالوں کا اعلان بھی ہوا۔21فروری 1952کو بھی عام ہڑتال کی کال دی گئی،حکومت کی جانب سے حالات قابو میں رکھنے کیلئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی۔ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ یہ پابندی توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔پولیس نے ابتدا ً لاٹھی چارج کیا،پھر گولی چلا دی۔کتنے لوگ مارے گئے اس بارے میں درست اعدادو شمار موجود نہیں لیکن تحریک چلانے والوں کا دعویٰ تھا کہ کل چالیس افراد مارے گئے جن میں بیشتر طلبہ تھے۔اپنی زبان کیلئے لڑی جانیوالی اس لڑائی نے ثابت کر دیا کہ دو قومیں جن کی ثقافت اور روایات الگ الگ ہوں انہیں کسی ایک ثقافت کے زور پر اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا۔یہی وہ چنگاری تھی جس کے انیس سال بعد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔اقوام متحدہ نے 2010میں جنرل اسمبلی سے قرارداد پاس کرنے کے بعد بنگالی طلبہ کی برسی کو مادری زبانوں کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا۔
آج ہم مادری زبان کا عالمی دن تو منا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آج حالات 1952سے کتنے مختلف ہیں؟کیا آج ہم وہیں،اسی رویے کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش نہیں کر رہے جس میں مقامی زبانوں کوطبقاتی تفریق سے جوڑا جارہا ہے؟۔کیا ہماری بیوروکریسی اور مقتدر طبقہ احساس ِ برتری کے لیے محض انگریزی زبان کا مستقل فیشن اختیار نہیں کر چکا؟کیا ہمارے سرکاری دفاتر،کچہری اور اسمبلی تک کی کارروائی انگریزی زبان میں قلم بند نہیں کی جاتی؟کیا تمام نوٹسز اور احکامات بھی انگریزی زبان ہی میں جاری نہیں ہوتے؟اور تو اور ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی مقامی زبانوں کو جہالت اور بد تہذیبی سے جوڑا جارہا ہے۔خاص طور پر اس خطے کی سب سے بڑی زبان پنجابی کے ساتھ ہونے والا سلوک انتہائی قابل ِ مذمت ہے۔دنیا بھر میں اس زبان کو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد 20کروڑ کے لگ بھگ ہے۔اس زبان کی اپنی منفرد پہچان اور انتہائی شاندار تاریخی پس منظر ہے۔اب تو یہ رائے بھی دی جارہی ہے کہ ممکنہ طور پر ہڑپہ کی تہذیب میں پنجابی زبان ہی بولی جاتی تھی۔اس رائے سے اگر اختلاف کی گنجائش ہے تو بس اتنی سی کہ ہزاروں سال پہلے کی پنجابی اور آج رائج زبان میں بہت تبدیلی آچکی لیکن یہ دعویٰ رد نہیں کیا جا سکتا کہ ہڑپہ تہذیب کی زبان کلی طور پر موجودہ پنجابی سے مختلف یا الگ تھی۔بہرحال اپنی بھرپور ثقافت کے باوجود پنجابی زبان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔پنجاب کی صوبائی حکومت کا رویہ بھی دشمنی پر مبنی ہے۔سرکاری سطح پر پنجابی کو رائج کرنا تو دور کی بات اب اس زبان میں چھپنے والے رسائل و جرائد کی حوصلہ شکنی باقاعدہ سرکار کی پالیسی کا حصہ ہے۔ حکومت کی پنجاب دشمنی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ لاہور کو شہر ادب قرار دیا گیا لیکن وزارت اطلاعات کی جانب سے جو اشتہار جاری کیا گیا اس میں اس شہر کی زبان یعنی پنجابی لکھنے والے ایک بھی ادیب کی تصویر شائع نہیں کی گئی،سارے کے سارے ادیب اردو زبان سے متعلق تھے۔ ایسے رویے سندھی،بلوچی یا پشتو زبان کے ساتھ روا نہیں ہیں۔وہاں ان قومی زبانوں کو پروان چڑھانے میں صوبائی حکومتوں کا بڑا ہاتھ ہے جبکہ پنجاب میں آنے والی ہر حکومت جیسے یہی سمجھتی ہے کہ پنجابی اس کی اپوزیشن کرنے والوں کی زبان ہو۔ہم نے ابتدا میں زبان کے آغاز پر بات کی،ماہرین لسانیات کے تجربے کی روشنی میں زبان کے آغاز اور تہذیبی پس منظر کے بارے میں جاننا چاہا اور اب گفتگو کے آخر میں زبانوں کی تباہی پر بات کرتے ہوئے اس موجودہ زمانے میں کھڑے ہیں جہاں بہت سی مقامی زبانوں، بالخصوص پنجابی کے قتل کی سازشیں کی جارہی ہیں۔آج مادری زبانوںکے عالمی دن کے موقع پر ہم سب کو ان زبانوں کے حقوق کی بات کرنی چاہیے جن کا گلا گھونٹنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔جن سے وابستہ تہذیب کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔یاد رکھیے اگر آپ کی زبان زندہ ہے تو آپ کی پہچان زندہ ہے ورنہ تاریخ آپ کو کسی اور کی تہذیبی پہچان سے یاد رکھے گی۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن