حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’سیاسی جنگ ‘‘ ایوان بالا تک پہنچ گئی ہے اپوزیشن سینیٹ کے انتخابات رکوانے کیلئے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کی دھمکی دے رہی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ تمام جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کیلئے تیار نہیں لہذا وہ سینیٹ کے انتخابات نہیں رکوا سکے گی جس کے بعد اپوزیشن نے اپنی حکمت عملی میں تبدیل کر لی۔ اپوزیشن نے جہاں ضمنی انتخابات میں حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا وہاں سینیٹ میں بھی حکومت کو ’’واک اوور‘‘ نہ دیا اور سینیٹ کا انتخابی میدان خالی نہ چھوڑا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ضمنی انتخابات میں حکومت کو شکست دے کر ثابت کر دیا کہ اس کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ درست تھا ۔اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’’پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ‘‘ کے پلیٹ فارم پر متفقہ امیدوار کھڑے کرنے کا مشکل فیصلہ کیا گیا جس پر کسی حد تک عمل درآمد کیا گیا ۔ اپوزیشن نے اسلام آباد کی نشست سے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کا متفقہ امیدوار نامزد کر کے نہ صرف حکومت کو ’’سرپرائز ‘‘دیا ہے بلکہ اسے مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ حکومت نے عبد الحفیظ شیخ کو ٹیکنو کریٹ کی نشست سے پی ٹی کا ٹکٹ دیا ہے وہ پی ٹی آئی میں نو وارد ہیں ویسے بھی کسی حکومت میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان ’ پارلیمنٹ سٹنگ’وزیر خزانہ‘‘ کے سخت فیصلوں کی وجہ سے ’’ناخوش‘‘ ہوتے ہیں چونکہ سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست کیلئے قومی اسمبلی حلقہ انتخاب ہے لہذا اس نشست کے انتخاب میں تمام ارکان ووٹ ڈالیں گے خواہ وہ جیل میں ہوں یا علیل انہیں ووٹ ڈالنے کیلئے پارلیمان میں لانا لازمی امر ہے ۔ اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اپنی تمام تر توجہ سینیٹ انتخابات پر مرکوز کر دی ہے ۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں پیپلز پارٹی وزیر اعظم عمران خان کے تحریک عدم اعتماد لانے کیلئے مصر تھی لیکن اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے اتفاق نہیں کیا اسلام آباد کی نشست سے سید یوسف رضا گیلانی کو کھڑا کر کے عملاً وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ہی پیش کر دی ہے خفیہ ووٹ میں حکومت کو شکست کا خطرہ ہے لہذا حکومت ’’اوپن ووٹ‘‘ کے ذریعے سینیٹ کا انتخاب کرانے پر مصر ہے کیونکہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اسلام آباد کی نشست پر شکست کا مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ آجائیگا لہذا وہ اسلام آباد کی نشست ہر قیمت پر جیتنا چاہتی ہے ۔ سینیٹ کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو معمولی اکثریت حاصل ہونے کا امکان ہے لیکن اسے اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ ’’خفیہ ووٹنگ‘‘ سے کوئی نشست کھو سکتی ہے لہذا اس نے پہلے قومی اسمبلی میں 26ویں آئینی ترمیم منظور کرانے کی ناکام کوشش کی جسکے بعد صدارتی آرڈیننس جاری کرکے اوپن ووٹ سے انتخابات کرانا چاہتی ہے تاحال صدارتی ریفرنس پر بھی سپریم کورٹ کے5رکنی لارجر بینچ کی رائے نہیں آئی اس سلسلے میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سپریم کورٹ میں جنگ لڑی جا رہی ہے سینیٹ کے انتخابی عمل کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے 23فروری 2021ء کو امیدواروں کی فہرست جاری ہو جائیگی سیاسی جماعتوں نے پارٹی ٹکٹ جاری کر دئیے ہیں بعض سیاسی جماعتوں نے آخری وقت میں اپنے امیدواروں کے پارٹی ٹکٹ واپس لے لئے ہیں سب سے بڑا اپ سیٹ مسلم لیگ (ن) میں ہوا ہے جہاں پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اپنے چیئرمین راجہ محمد ظفر الحق کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق نے پارٹی قیادت کی جانب سے سینیٹ الیکشن کیلئے ٹکٹ نہ دیئے جانے کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اس مرتبہ ٹکٹ کیلئے درخواست ہی نہیں دی اور دو ماہ قبل ہی پارٹی قائد نواز شریف کو اپنے فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا ۔ لیکن یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے راجہ محمد ظفر الحق نے کبھی ٹکٹ کیلئے درخواست دی ہی نہیں بلکہ پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ انکی خدمات کے اعتراف میں خود پارٹی ٹکٹ سے نوازا ہے جب 10دسمبر 2000ء کی رات شریف خاندان کو سعودی عرب جلاوطن کیا جا رہا تھا تو جہاں میاں نواز شریف نے مخدوم جاوید ہاشمی کو پارٹی کا قائم مقام صدر بنایا وہاں انہوں نے پارٹی کو متحد رکھنے اور سینئر مسلم لیگی رہنمائوں کو ڈسپلن میں رکھنے کیلئے راجہ محمد ظفر الحق کو پارٹی کا چیئرمین بنایا اس موقع پر راجہ محمد ظفر الحق ہی تھے جنہوں نے مخدوم جاوید ہاشمی کی صدارت میں پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں بیٹھنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنیوالے مسلم لیگیوں سے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’’اگر میاں نواز شریف کسی پتھر کو پارٹی کا قائم مقام صدر بنا جاتے تو بھی ہم انکے حکم کی تعمیل کرینگے پھر میاں نواز شریف کی جلاوطنی کے دوران راجہ محمد ظفر الحق اور مخدوم جاوید ہاشمی پارٹی کے اجلاسوں کی مشترکہ صدارت کرتے رہے ۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے راجہ محمد ظفر الحق کو ’’پرویزی مارشل لاء ‘‘ کا حصہ بننے کیلئے سرکاری مسلم لیگ کا صدر بننے اور عبوری مدت کیلئے وزارت عظمیٰ کی پیش کی لیکن انہوں نے یہ پر کشش پیشکش ٹھکرا دی اور نواز شریف کے ساتھ کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا جس کی پاداش میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے انہیں 2002ء کی قومی اسمبلی میں پہنچنے نہیں دیا لیکن مجھے یہ دکھ ہوا ہے پارٹی ٹکٹ جاری کرتے ہوئے بعض ’’اجنبی ‘‘ نظریات کے حامل افراد نے راجہ صاحب کی پارٹی کیلئے خدمات بارے سوال اٹھایا ہے ؟ اس وقت راجہ محمد ظفر الحق سے بڑا کون مسلم لیگی ہے ؟ راجہ محمد ظفر الحق کی پہچان مسلم لیگ(ن) سے نہیں ہے بلکہ مسلم لیگ(ن) کی پہچان راجہ محمد ظفر الحق سے ضرور ہے۔ چوہدری تنویر خان جو اس وقت حکومت کے انتقام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں ان کو بھی پارٹی ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ سینیٹ کے پچھلے انتخابات میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت ان پر اس حد تک مہربان تھی کہ ان کوبلا کر ٹکٹ دیا ۔ مسلم لیگ (ن) میں کچھ ’’ پیرا ٹروپر ‘ ‘ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
میاں نواز شریف جنہوں نے وڈیو لنک پر خود پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی نے موت و زیست کی جنگ لڑنے والے سینیٹر مشاہد اللہ خان کو تیسری بار سینیٹ کا ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ان کو بتایا گیا کہ سینیٹر مشاہد اللہ خان کسی وقت بھی زندگی کی جنگ ہار سکتے ہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر ان کا ٹکٹ برقرار رکھا زندگی بھر میری جنگ لڑنے والا زندگی کی بازی ہار بھی گیا تب بھی اس کو ٹکٹ دوں گا قبل اس کے کہ سینیٹر مشاہد اللہ خان اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتے انہوں نے حفظ ما تقدم کے طور پر پارٹی ٹکٹ ان کے صاحب زادے افنان اللہ کو دے دیا ۔
سینیٹ کے انتخابات اور راجہ محمد ظفر الحق
Feb 21, 2021