جمہوریت اور تشدد 

مغربی مفکر جان لاک نے کہا تھا کہ جمہوریت کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس نظام میں خون خرابے کے بغیر اقتدار دوسرے کو منتقل ہو سکتا ہے۔ لاک کے خیال میں جمہوری نظام کے متعارف ہونے سے پہلے بادشاہتوں اور آمریت میں خون خرابے میں انتقالِ اقتدار کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بادشاہ اپنے بیٹوں کو قتل کرتے رہے اور بیٹے اپنے بادشاہ والد کو تہہِ تیغ کر کے اقتدار سنبھالتے رہے۔ یہ سلسلہ اس وقت رکا جب یونان میں ابتدائی جمہوری ریاستوں کو قیام عمل میں آنا شروع ہوا۔ افلاطون اور دوسرے مفکرین نے جمہوریت کا تصور پیش کیا۔ پچھلے کئی سو سال عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت قائم کرنے کیلئے بڑی جدوجہد ہوتی رہی۔
 اب گذشتہ ایک صدی میں مغربی ممالک کے علاوہ تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی جمہوری نظام کو اپنایا جا رہا ہے۔ لیکن ان ممالک میں جہاں جمہوریت ابھی نوزائیدہ ہے، جمہوری ادارے مستحکم نہیں ہو پائے۔ صدر جوبائیڈن نے دو دن پہلے اپنے تقریر میں کہا ہے کہ پوری دنیا کی جمہوریت کو خطرات لاحق ہیں۔ ان کا اشارہ خود امریکی جمہوریت کی طرف ہے جہاں ان کے پیش رو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حامیوں کے ذریعے امریکی کانگرس کی عمارت پر حملہ کرایا اور اس پرتشدد واقعے میں امریکی شہری بھی مارے گئے۔ اب بھی تجزیہ کاروں اور سیاسی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں اب بھی سیاسی پرتشدد واقعات کا خدشہ لاحق ہے۔ ان ممالک میں جہاں جمہوریت یا جمہوری نظام پر ابھی تجربات کئے جا رہے ہیں، وہاں تو صورتحال بہت افسوسناک ہے۔ حال ہی میں میانمر میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آنے کے بعد فوج نے اقتدار پر ایک مرتبہ پھر قبضہ کر لیا جس کے خلاف میانمر کے عوام سراپا احتجاج ہیں اور سڑکوں پر متشدد مظاہرے جاری ہیں۔ تھائی لینڈ میں بھی جمہوریت اور شخصی اقتدار کی کشمکش ہو رہی ہے۔ یوکرین اور کئی دوسرے ملکوں میں جمہوری نظام کو خطرات لاحق ہیں اور وہاں بھی جمہوریت کے نام پر تشدد ہو رہا ہے۔ 
2012 میں مشرق وسطیٰ میں عرب سپرنگ کے نام سے جو انقلابی لہر اٹھی تھی، اس میں بھی بڑی تعداد میں لوگ نظام کو تبدیل کرنے کی جدوجہد میں جان کی بازی لگا بیٹھے۔ مصر ، تیونس اور کئی دوسرے ممالک میں تشدد کی وجہ سے سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے اور جیلوں میں بھی ڈالے گئے۔ پاکستان میں بھی جمہوریت اور آمریت کے ادوار کا ایک تسلسل رہا ہے۔ فوجی آمریت کو ختم کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں اور سیاسی قوتوں نے احتجاج کیا، اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر لوگوں نے جانیں دیں اور جیلوں میں بھی گئے۔ 1968 میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام نے ایوب خان کی آمریت کے خلاف تحریک شروع کی تو اس تحریک میں سینکڑوں افراد مارے گئے اور کم و بیش اتنے ہی جیلوں میں بھی ڈالے گئے۔ 
1977 میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے جب مارچ میں الیکشن کرائے تو بھٹو حکومت کی مخالف نو جماعتی اپوزیشن نے الیکشن کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا اور از سر نو الیکشن کا مطالبہ لے کر ایک تحریک چلائی جس میں تشدد ہوا، گولیاں چلیں اور سینکڑوں پاکستانیوں نے جان کی بازی لگا دی۔ سینکڑوں جیلوں میں گئے جن میں قد آور سیاسی رہنما شامل تھے۔ ابھی کل پاکستان میں جو ضمنی انتخابات ڈسکہ وزیرآباد اور نوشہرہ میں ہوئے ، ان میں بھی تشدد ہوا اور دو افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ درجنوں زخمی ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ قرون وسطیٰ میں جس طرح انتقال اقتدار کے لئے خون خرابہ ہوتا تھا اس طرح اب تو نہیں ہو رہا لیکن جان لاک اور اس کی قبیل کے مغربی مفکرین کا یہ خواب ابھی ادھورا ہے کہ جمہوریت میں نئی حکومت کے انتخاب اور انتقال اقتدار میں خون خرابہ نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عملی طور پر جہاں بھی انتخابات ہو رہے ہیں اور انتقال اقتدار کی بات ہوتی ہے، وہاں تشدد اس کا ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے۔ 
وطن عزیز میں تو ڈکٹیٹروں کے علاوہ جتنی بھی جمہوری حکومتیں آئیں ان کے سربراہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ وہ اگلی مدت کے لئے اپنا انتخاب یقینی بنائیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بھی یہی کوشش تھی جس کے نتیجہ میں نہ صرف وہ اقتدار سے بلکہ جان سے بھی گئے۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی اسی تگ و دو میں رہے کہ وہ ایک نہیں کم دو یا تین ٹرم کیلئے اقتدار میں رہیں لیکن ان کی حکومتیں آدھی مدت بھی پوری نہ کرنے پائیں۔ 
عمران خان کا یہ کہنا کہ جو طویل المدت منصوبہ بندی اور ترقیاتی پلان پاکستان کو درکار ہے اس کیلئے پانچ سال کی مدت کافی نہیں۔ ان کے ذہن میں بھی یہ ہے کہ پانچ سال کا عرصہ اقتدار اپنے ملک کو خوشحالی سے ہمکنار کرنے کا مشن اس عرصہ میں مکمل نہیں کیا جا سکتا لیکن جو جمہوری روایت دنیا بھر میں چل پڑی ہے اس کے تحت ہر منتخب حکومت کی چار یا پانچ سال کی ٹرم ہے، اس کے دوران اگر وہ اچھا پرفارم کرے تو لوگ اسے از سر نو موقع دے دیتے ہیں وگرنہ اس حکومت کو گھر جانا پڑتا ہے۔
 جمہوری نظام میں ایک حکومت سے دوسری کو اقتدار منتقل کرنے کا عمل پر امن بنانے کیلئے جہاں تعلیم اور سیاسی شعور، رواداری اور جمہوری اقدار کی پاسداری ضروری ہے، وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سیاستدان اور ان کے سپورٹرز اس جمہوری روح کو اپنائیں جس میں تشدد کے بغیر رائے دہی سے لے کر حکومت سازی اور انتقال اقتدار کا سارا عمل پر امن ہو۔ یہ ایک مشکل کام ہے لیکن جمہوری نظام کی بنیاد رکھنے والوں کا خواب یہی تھا کہ اس نظام میں تشدد کے بغیر لوگ اپنی رائے سے ان حکومتوں کو تبدیل کرنے لگیں گے لیکن ابھی تک یہ خواب ادھورا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن