افغانستان میں بڑھتے ہوئے انسانی مسائل پوری دنیا کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں ، پاکستان ایک برادر اسلامی ملک اور ہمسایہ ہونے کے ناتے اس صورتِ حال کی سنگینی کا پوری طرح ادراک رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کی مسلسل کوشش ہے کہ عالمی برادری افغانستان میں ممکنہ انسانی بحران سے بچائو کے لیے فی الفور اقدامات کرے۔ اس مقصد کے لیے وزیر اعظم پاکستان عمران خان دوست ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ان پر افغانستان کی عبوری حکومت کی امداد کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہفتہ کے روز انہوں نے آسٹریا کے چانسلر کارل نی ہمر سے افغانستان کی تازہ صورتحال پر تبادلۂ خیالات کیا اور کہا کہ ہمیں یہ فکر لاحق ہے کہ افغانستان میں انسانی بحران کیسے ٹالا جائے۔ وزیر اعظم نے آسٹریا کے چانسلر کو پاکستان کے دورے کی باضابطہ دعوت بھی دی اور کہا کہ ہم آپ کے دورہ ٔ پاکستان کے منتظر ہیں۔وزیر اعظم اس سے پہلے بھی متعدد سربراہانِ مملکت کی توجہ افغانستان کی تشویشناک صورتحال کی جانب مبذول کروا چکے ہیں۔ دنیا بھر کی اقوام کی نمائندہ تنظیم اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی افغانستان میں صحت اور خوراک کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے عالمی برادری کو افغانستان کی مدد کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔ اس وقت افغانستان میں خوراک کی شدید قلت کے باعث لوگوں کے بھوکوں مرنے کے امکانات پیدا ہو چکے ہیں۔ انہیں مختلف نوعیت کی بیماریوں کی وجہ سے صحت کے مسائل بھی درپیش ہیں جس کی بڑی وجہ علاج معالجہ کی سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ ان مسائل و مشکلات کے مقابلے میں افغان حکومت کے پاس مادی وسائل انتہائی محدود ہیں۔ دوسری طرف امریکہ نے ان کے تقریباً 10 ارب منجمد کررکھے ہیں۔ اگر صرف امریکہ ہی افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر دے تو اس سے ان کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس افغانستان کے پریشان حال عوام کی امداد ہی کی غرض سے طلب کیا تھا جس میں عرب ممالک نے افغانستان کی عبوری حکومت کی امداد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری افغان عوام کی انسانی بنیاد وں پر بھرپور مدد کرے۔