مادری زبانوں کا عالمی دن

یونیسکو نے 1999ء  میں 21 فروری کو دنیا بھر میں موجود مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا جس کی نسبت 21 فروری 1952 ء کے ایک واقعہ سے ہے جب مشرقی پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دئیے جانے پر فسادات کے دوران دفعہ 144 کے باوجود ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلباء نے احتجاجی جلوس نکالا جس پر پولیس نے گولی چلا دی اور متعدد مظاہرین ہلاک ہو گئے تھے۔ چار سال بعد بنگالی زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا لیکن  اس کے 19 سال بعد پاکستان کے دو ٹکڑے کر کے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا گیا۔ 21 فروری کو بنگلہ دیش میں یوم شہدا منایا جاتا ہے۔ دو بنگالیوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان کو خط لکھے جس پر یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا اور 2010 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مادری زبانوں کے عالمی دن کو منانے کی منظوری دے دی۔             ایک لسانی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں کْل چھ ہزار آٹھ سو نو زبانیں بولی جاتی ہیں جن کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے 537 زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے افراد کی تعداد تقریباً پچاس افراد کے قریب ہی رہ گئی ہے اور 46 زبانیں مکمل ختم ہونے کو ہیں جن کو بولنے والا دنیا میں ایک ایک انسان ہی باقی بچا ہے۔ چین کی مْنڈری زبان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان ہے۔ دوسرے نمبر پر انگریزی ہے اگر اردو اور ہندی کو ایک ہی زبان تصور کیا جائے تو تیسرا نمبر اردو کا ہے لیکن ہندی کو اگر الگ شمار کیا جائے تو عالمی زبانوں کی فہرست میں یہ چھٹے نمبر پر ہے۔ پانچویں نمبر پر بنگالی اور اردو بائیسویں نمبر پر چلی جاتی ہے۔ عربی اور ہسپانوی بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہیں 32 کروڑ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے 35 کروڑ افراد اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی روانی سے بولتے ہیں اور دس کروڑ کے قریب لوگ ضرورت کے مطابق انگریزی سمجھتے ہیں۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بولی جانے والی سات ہزار کے قریب زبانوں کو ابتدائی دس بڑے خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جس میں زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہند ، یو پی گروہ ہے جس میں انگریزی ،اردو، ہندی ، بنگالی ، پنجابی ، فارسی ، سنسکرت اور لاطینی زبانیں شامل ہیں۔ گو عربی زبان کا تعلق دوسرے خاندان سے ہے لیکن اردو اور فارسی سے اس کی دور کی رشتے داری بنتی ہے۔ زبانوں کے دوسرے بڑے خاندان میں چین کی مْنڈری ، تبت ، آسام اور برما کی زبانیں ہیں جن کا لہجہ ایک جیسا ہے۔ زبانوں کے تیسرے خاندان میں آرامی ، اسیری ، سمیری ، اکادمی اور کنعانی زبانیں شامل ہیں جن میں اب عربی اور عبرانی مشہور ہیں۔   
12ء سے 13ء  ویں صدی میں مغلیہ دور تک برصغیر میں مغربی ایشیاء  سے آنے والے لشکروں اور صوفیوں کے باعث عربی ، فارسی اور ترکی کے مرکب سے اردو زبان تشکیل پائی جس میں اب انگریزی بھی شامل ہو چکی ہے۔ پاکستان کے اندر کم و بیش 74 مادری زبانیں بولی جاتی ہیں اور مردم شماری کے خانے میں صرف آٹھ 9 زبانوں کا ذکر ہوتا ہے۔ مادری زبان کا تعلق ماں کی لوریوں اور چیزوں کی ابتدائی شناخت کے ناموں سے ہوتا ہے۔ مادری زبان کا عالمی دن منانے کا مقصد یہی ہے کہ انسان اپنے ماضی اور آباو و اجداد سے جْڑا رہے باقی ایک ہی زبان کے درجنوں لہجے ہوتے ہیں اور کئی زبانوں سے مل کر کوئی نئی زبان بھی تخلیق ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں بولی جانے والی پنجابی کے ہی مختلف قوموں اور برادریوں کے الگ الگ لہجے ہیں الفاظ تک تبدیل ہو جاتے ہیں۔ ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں نقل مکانی سے بھی مادری زبان تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہٹلر کے ظلم سے امریکہ برطانیہ میں نقل مکانی کرنے والے جرمنوں کی مادری زبان جرمنی کی بجائے اب انگریزی ہے۔ لندن میں دنیا کی 300 زبانیں بولی جاتی ہیں امریکہ کی 32 کروڑ آبادی میں سے صرف چھ کروڑ انگریزی بولتے ہیں باقی لوگ دوسری زبانیں بولتے ہیں جن میں اکثریت ہسپانوی زبان کی ہے۔ امریکہ کے اندر جنوبی ہند کی زبانیں ہندی ، اردو ، گجراتی ، تیلگو ، بنگالی ، تامل ، عربی ، چینی اور ہیٹی بھی بولی جاتی ہے ۔ دیگر زبانوں کو سیکھنا بھی ایک علم ہے ہمارے بڑے بڑے سکالرز متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور اب تو دنیا ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے مارکیٹیں نیشنل سے انٹرنیشنل ہو چکی ہیں جس کے لیے دوسری زبانوں کا سیکھنا بھی ضروری ہو چکا ہے۔ مادری زبان سے جْڑے رہنا ایک ذہنی تسکین ہے تو دوسری زبان سیکھنا معاشی اور علمی ضرورت ہے۔ انسانی دماغ کی ساخت پر بھی بات کریں تو انسانی دماغی آئی کیو لیول 150 تک ہوتا ہے جب کہ ایک اوسط انسان مرتے دم تک اپنے دماغ کا صرف تین سے چار فیصد تک ہی استعمال کر پاتا ہے اولیا اللہ ، سائنسدان اور پیغمبر اپنے دماغ کا بارہ سے چودہ فیصد تک استعمال کر سکے ہیں۔ انسانی یادداشت کمزور ہونے پر جو دماغی ایکسر سائز کرائی جاتی ہیں اْن میں بھی دماغ کو روٹین سے ہٹا کر دوسری طرف لگانا ہوتا ہے جیسے کہ ایک کام سیدھے ہاتھ سے کرنے کی عادت ہے تو اسے اْلٹے ہاتھ سے کروایا جاتا ہے اس سے دماغ کے وہ خلیے کام کرنے لگ جاتے ہیں جن کو کبھی استعمال نہیں کیا گیا اور وہ خالی پڑے تھے دماغی ایکسرسائز کا یہی فارمولا ہے کہ دماغ کے وہ خانے جن میں میموری فِل ہو چکی ہے ان کو چھوڑ کر دوسرے خانے استعمال کرنے کی عادت ڈالی جائے تو یادداشت اور انسانی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن