انجمن ستائشِ باہمی

ترقی پسند تحریک کا اردو ادب میں کلیدی کردار رہا ہے۔اردو میں ترقی پسند تحریک کا آغاز بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ہوا تھا۔  دوسری تحریک کی طرح اردو ادب میں ترقی پسند تحریک اچانک وارد نہیں ہوئی بلکہ اسے وجود میںلانے والے عوامل میں سماجی، معاشی اور اقتصادی حالات کا دخل ہے۔ ترقی پسند تحریک عالمی سطح کی تحریک تھی جس کی بہت سی فلسفیانہ اساس ہیں۔ اردو کے بیشتر نقادترقی پسند تحریک کو علی گڑھ تحریک کی توسیع کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حقیقت نگاری کا جو تصور سرسید احمد خاں کے عہد میں تھا وہ اصلاحی اور تعمیری تحریک کا آغاز تھا۔اردو کے بڑے بڑے ادیب اس کے بینر تلے آگئے۔ کچھ نے خود کو اس تحریک کے لیے وقف بھی کر دیا اور کچھ منسلک رہ کر تخلیقات سامنے لاتے رہے ۔ ترقی پسند مصنفین کے قلم سے اہل ذوق کی تشنگی مٹانے کیلئے معیاری ادب پڑھنے ، دیکھنے اور سننے کو ملتا رہا۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں اردو ادب میں ڈرامائی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئیں اور شاعری میں تنوع ،جدت ترازی اور نکتہ آفرینی پر زیادہ زور دیا جانے لگا جس کے مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں نے ادب پر گہرا اثر ڈالا۔ بحیثیت قلمکار میں بھی اردو ادب میں دقیانوسی اور بوسیدہ خیالات سے باغی ہوں لیکن جدت کے نام پر ادب بالخصوص شاعری کے ساتھ ہونے والا ظلم دیکھا نہیں جاتا۔
میں آج اکیلا ہوں ، پستول بھی ہے ، دکھ بھی ہے
تمہارے باغ میں بیٹھے پرندے اڑ جائیں گے 
ستم ظریفی یہ ہے کہ ادب میں جدت کے چکر میں آج کی نوجوان نسل ’’اندھا دھند‘‘ تقلید کی قائل ہے۔ یہ سطور رقم کرتے ہوئے مجھے چارلس کالیب کولٹن کا ایک قول یاد آ گیا کہ ’’تقلید چاپلوسی کی سب سے پُرجوش شکل ہے‘‘۔ دور حاضر میں ادب پاکستان میں بڑی ’’بے ادبی‘‘ سے پھل پھول رہا ہے ۔ ہر طرف ’’نامور‘‘ اور سینئر ’’شعراء و شاعرات‘‘ کی بھرمار نے ملک بھر کی ادبی سرگرمیوں کو ’’چار چاند‘‘ لگا دیئے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ’’دریافت‘‘ اور ’’پیدا‘‘ ہونے والے نوزائیدہ شاعر اور شاعرات جمعہ جمعہ آٹھ دن میں غالب ، میر، اقبال ، سودا، فیض اور جون ایلیا بننے کے چکر میں ’’واہی تباہی‘‘ ’’تخلیق‘‘ کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو موجودہ ادب کا ’’بیڑہ پار‘‘ کروانے میں ادبی سیاست اور کئی سینئر ’’شعرا‘‘ کا بھی ہاتھ ہے لیکن جو کام ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ نے کیا وہ دو سو برسوں میں بھی کوئی سر انجام نہیں دے سکا۔رہی سہی کسر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس نے نکال دی ۔ آج کل ہر گلی کوچے میں عروض سے بے بہرا ’’دھڑا دھڑ‘‘ نئے لکھنے والے’’متشاعر‘‘ سنجیدہ ، با صلاحیت اور واقعی سینئر شعرا ء سے گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں ادبی دنیا میں وہ ’’مقام‘‘ نہیں دیا جا رہا جس کے وہ حقدار ہیں۔ حالانکہ سینئر شعراء کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ’بمشکل ’چار‘‘ غزلیں کہنے کے بعد ’’استاد‘‘ کہلانے والے ’’سینئرشاعر‘‘ کی تعظیم ان پر لازم ہے۔ 
دیکھا نہ کوہ کن کوئی فرہاد کے بغیر 
آتا نہیں ہے فن کوئی استاد کے بغیر 
امروزبھی اردو ادب میں ’’انجمن ستائشِ باہمی‘‘ کا بڑا چرچا ہے۔ نویں جماعت سے بے وزن شعر کہنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ عروض سے وابستگی کے بعد پختگی آئی تو ایک آدھ مشاعرہ بھی پڑھ لیا۔ جب پہلی مرتبہ ’’انجمن ستائشِ باہمی‘‘ کی اصطلاح سنی تو دسویںجماعت کا طالبعلم تھا۔ بڑا اشتیاق ہوا کہ اردو اب میں اکثر مذکورہ انجمن کا تذکرہ سننے کو ملتا ہے ، یقیناََ ادب میں کوئی کارہائے نمایاں سر انجام دینے والی ادبی تنظیم ہوگی۔ خوش فہمیوں کے محلات اس وقت چکنا چور ہوئے جب میں کج فہم اس کے معانی روشناس ہوا۔ دل کو اطمینان بھی ہوا کہ چلو اتنی اعلیٰ انجمن کا حصہ بننے سے ’’محروم‘‘ رہ گئے۔ شعری حوالے سے مجھے جاننے والے احباب کومعلوم ہے کہ میں مشاعروں میں بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر شریک ہوتا ہوں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ متذکرہ بالا ’’انجمن‘‘ ہے جو ادب کو ’’گھُن‘‘ کی طرح چاٹ رہی ہے۔ کسی شعر یا غزل پر کہیں سے واقعی داد بھی ملے تو ایسا لگتا ہے کہ کہیں اس ‘‘کمبخت‘‘ میں تونہیں آن پہنچا۔ اپنی ’’مختصر‘‘ ادبی زندگی میں ’’انجمن ستائشِ باہمی‘‘ کے کئی قصے دیکھے اور سنے ہیں، زیادہ تر میں خواتین کو مردوں پر ’’ازلی‘‘ فوقیت حاصل ہے۔ صنف نازک ہمیشہ ’’مرد پرستی‘‘ کا شکوہ کرتی نظر آئی ہے لیکن اگر کسی نے ’’خواتین ‘‘ کی فوقیت کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو وہ ادبی حلقوں میں دیکھ سکتا ہے۔ ’’انجمن ستائشِ باہمی‘‘ کی دلچسپ اور ناقابل فراموش کارروائیاں اور قصے اپنے کسی اگلے کالم میں بیان کروں گا فی الحال ایک بیٹھک میں کہا گیا میرا شعرکہ 
چونکہ لڑکی ہے اس لئے اُس کا
ایک مصرع غزل پہ بھاری ہے

ای پیپر دی نیشن