آئی ایم ایف کا امیروں کو سبسڈی نہ دینے کا مطالبہ


ہمارے ملک میں گنگا الٹی بہتی ہے۔ دنیا بھر میں زیادہ کمانے والے سے زیادہ محصولات وصول کیے جاتے ہیں اور بدلے میں انھیں حکومت کی طرف سے سہولیات بھی مہیا کی جاتی ہیں تاکہ انھیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ ٹیکسوں کی شکل میں جو رقم دے رہے ہیں اس سے انھیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا۔ پاکستان میں یکے بعد دیگرے بننے والی حکومتوں نے اس سے متضاد رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہاں کم آدمی والے عام لوگوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں اور بدلے میں انھیں سہولیات بھی نہیں دی جاتیں۔ ہاں، اشرافیہ کی موجیں لگی ہوئی ہیں کیونکہ انھیں اپنی بھاری آمدنی اس شرح سے محصول ادا نہیں کرنا پڑتا جس شرح سے ایک عام آدمی ٹیکس دے رہا ہے۔ یوں ایک جانب تو اشرافیہ کو ٹیکس میں چھوٹ مل جاتی ہے اور دوسری طرف حکومت ہر سال قومی خزانے سے بھاری رقوم انھیں سہولیات اور مراعات فراہم کرنے پر خرچ کرتی ہے۔
سبسڈی اس ملک میں اگر موضوعِ بحث بنتی ہے تو صرف وہی جو عام آدمی کو دی جاتی ہے اور اس کا ذکر بھی یوں کیا جاتا ہے جیسے اس کے لیے رقم سیاست دان اپنی ذاتی گرہ سے مہیا کرتے ہوں۔ امیروں کو دی جانے والی سبسڈی کا اول تو کہیں ذکر ہی نہیں ہوتا اور اگر کہیں ذکر آ بھی جائے تو اس کو کم یا ختم کرنے کا خیال ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ نتیجہ اس سب کا یہ نکلتا ہے کہ جب بھی آئی ایم ایف یا کسی بھی اور مالیاتی ادارے یا ملک سے قرض لینے کی بات آتی ہے تو غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور پھر اسے کم کرنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن امیروں کو سہولیات و مراعات کی صورت میں جو سبسڈی مل رہی ہوتی ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ کسی ایک بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ ایسے اقدامات کی وجہ سے عام آدمی کا جمہوریت سے اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔
اس وقت ملک کو جن سنگین ترین معاشی حالات کا سامنا ہے ان میں بھی حکومت یا کسی سیاسی جماعت نے امیروں کے لیے سبسڈی اور سہولیات و مراعات کم یا ختم کرنے کی بات نہیں کی تاہم آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے ایک جرمن ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرے اور انھیں دی جانے والی سبسڈیز ختم کی جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سرکاری اور نجی شعبے میں اچھا کمانے والوں کو معیشت میں اپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ نے اس انٹرویو کے دوران مزید کہا کہ پاکستان میں امیر لوگوں کو سبسڈیز سے مستفید نہیں ہونا چاہیے۔ سبسڈی صرف ان لوگوں کو منتقل کی جائے جنھیں واقعی اس کی ضرورت ہے۔ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ جس بات کا احساس ہماری سیاسی قیادت کو خود ہونا چاہیے اس کی طرف توجہ ایک ایسے ادارے کی سربراہ دلا رہی ہے جو ایک قرض دہندہ کے طور پر ہمارے ہاں اچھی شہرت نہیں رکھتا۔
کرسٹالینا جارجیوا نے یہ بھی کہا کہ آئی ایم ایف بالکل واضح ہے کہ صرف غریبوں کو سبسڈی سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کے غریب عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ پاکستان کو قرضوں کی ری سٹرکچرنگ نہیں بلکہ ملک چلانے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے وہ آئی ایم ایف سے مدد مانگ رہا ہے۔ ہم چاہتے ہیں پاکستان ایک ملک کے طورپر اقدامات کرے۔ پاکستان کو ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ وہ اس قسم کی خطرناک صورتحال سے دوچار نہ ہو کہ اسے اپنے قرض ری سٹرکچر کرنا پڑیں۔ آئی ایم ایف کی ایم ڈی نے کہا کہ ہم پاکستان پر دو اہم نکات پر زور دے رہے ہیں: پہلا نکتہ ٹیکس ریونیو کا ہے اور دوسرا یہ کہ دولت کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔
جو باتیں آئی ایم ایف کی سربراہ نے مذکورہ انٹرویو کے دوران کی ہیں ہمارے کسی سیاسی رہنما کو یہ سب کہنے کی توفیق نہیں ہوئی اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت کا تعلق بھی اسی اشرافیہ سے ہے جو اس ملک کے وسائل کا بڑا حصہ ہڑپ کررہی ہے۔ جب بھی ٹیکس بڑھانے یا سبسڈی کم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو تمام مراعات یافتہ طبقات کے نمائندے اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے انتخابی نظام کو ایسا بنا دیا گیا ہے کہ کوئی عام آدمی الیکشن میں حصہ لے کر رکن پارلیمان کے طور پر منتخب ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا عام آدمی کی آواز کبھی ان ایوانوں تک پہنچ ہی نہیں پاتی۔ ہاں اس سلسلے میں ایک استثنیٰ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد ہیں جو گاہے گاہے ایوانِ بالا میں عوام کے مسائل بھی موضوعِ بحث لاتے ہیں اور ایسی تجاویز بھی پیش کرتے ہیں جن کا مقصد عام آدمی کے مسائل کم کرنا ہے۔
آئی ایم ایف کی سربراہ نے باتیں تو بالکل درست کہی ہیں اور مطالبات بھی جائز کیے ہیں لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اس حوالے سے کیا ردعمل دیتی ہے۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے پاکستان سے ایک بار پھر یہ تقاضا بھی کیا تھا کہ تمام سرکاری افسران کے اثاثہ جات کی تفصیل عوام کے سامنے لائی جائے لیکن جیسے ہی یہ مطالبہ سامنے آیا، مراعات یافتہ افسران کے گروہوں نے اپنے تحفظ کے لیے ہاتھ پیر مارنا شروع کردیے۔ ایک ایسا ملک جس میں وسائل پر قابض طبقات خود کو کسی قسم کے ذمہ داری کے لیے پیش ہی نہیں کرنا چاہتے اور خود کو ہر طرح کے احتساب سے بالاتر سمجھتے ہیں وہاں معاشی استحکام دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن