منگل، 29 رجب المرجب1444ھ،21 فروری 2023ئ

وقت آنے پر چیزوں کی قیمتیں کم ہونگی۔ ڈاکٹر مصدق ملک 
وہ وقت کب آئے گا اس کا علم شاید انہیں خود بھی نہیں یا پھر جب سارے غریب مر جائیں گے تب کہیں جا کر قیمتیں کم ہوں گی۔اب اس کا انتظار زیادہ نہیں کرنا پڑے گا آئے روز جس رفتار سے غریب خودکشیاں کررہے ہیں اس میں مزید شدت آرہی ہے اس کے بعد تو اب مارکیٹوں میں صرف امرا اور اشرافیہ ہی خوش گپیاں لگاتے شاپنگ کرتے نظر آئیں گے۔ نہ غریب ہوں گے نہ شکوے ہوں گے نہ شکایتیں ہونگی۔ شاید ہمارے حکمران بھی یہی چاہتے ہیں کہ چاروں طرف شانتی ہی شانتی ہو اور کوئی غریب ملک کے پُرامن ماحول میں گڑ بڑ کر کے رنگ میں بھنگ نہ ڈالے۔ اس لیے جب نچلا طبقہ ختم ہو جائے گا تو وہ وقت ضرور آئے گا جس کی بشارت ہمارے وزیر مملکت برائے پٹرولیم دے رہے ہیں۔ اس سے قبل تو شاید ان کی زندگی میں بھی یہ وقت نہ آئے۔ ویسے بھی زندگی کا کیا بھروسہ ہے۔ غریبوں کی زندگی تو ویسے ہی داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔ اشرافیہ کی بات ہی کچھ اور ہے۔ انہیں داﺅ کھیلنے کے بے شمار مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ بہترین ہسپتال بہترین علاج معالجہ، ملک و بیرون ملک علاج کی سہولت ، غریب بے چارہ سرکاری ہسپتال کی دہلیز پار بھی کرے تو اس کا علاج کیا ہونا اسے ٹرخایا جاتا ہے۔ یوں اس کا آخری وقت بھی وقت سے قبل ہی آ جاتا ہے۔ یہ مذاق نہیں حقیقت ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں خیراتی ہسپتالوں میں طویل انتظار، ضروری ادویات کی کمیابی، مہنگی ادویات و ٹیسٹ اور علاج معالجہ کی ناکافی سہولتوں کے باعث مریض جلد مر جاتے ہیں۔ اب ڈاکٹر مصدق ہی بتا سکتے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب بقول ناصر کاظمی:
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر 
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی 
عام آدمی ایک اچھی زندگی بسر کرے گا۔ اسی وقت کے انتظار میں ہم سب ہیں۔ شاید کبھی نہ کبھی تو وہ اچھا وقت ضرور آئے گا جب قیمتیں کم ہوں گی۔ یہ ایک خواب ہی سہی دیکھنے میں کیا ہرج ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کالعدم تنظیمیں عورتوں کو خود کش حملوں میں استعمال نہ کریں۔ وزیر داخلہ بلوچستان 
اگر یہ دہشت گرد بزدل نہ ہوتے تو خود یہ کام کرتے۔ دوسروں کے بچوں اور عورتوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کرتے۔ مگر سب جانتے ہیں کہ خود ان میں حوصلہ نہیںکہ سامنے سے آ کروار کریں۔ بزدلوں کی طرح یہ چھپ کر پیٹھ پیچھے سے وار کرتے ہیں۔ کہیں پولیس کی وردی پہن کر آتے ہیں کہیں عورتوں کی طرح برقعے اوڑھ کر۔ کہیں بچوں کو بمبار بنا کر لایا جاتا ہے اورکہیں عورتوں کو یہ لوگ خودکش حملوں کے لیے تیار کرکے بھیجتے ہیں۔ یہ نہایت شرم کی بات ہے۔ کوئی بھی بُرے سے بُرا شخص بھی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے عورتوں کو استعمال نہیں کرتا مگر یہ دہشت گرد ایسا کرتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کئی لوگ مذہب و مسلک کے نام پر کہیں قومیت اور زبان کے نام پر ایسی کارروائی کرتے ہیں۔ اس وقت یہ لوگ عورتوں کی عزت اور حرمت کے تقدس اور احترام کا درس نجانے کیوں بھول جاتے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگ عورتوں کی تعلیم، ملازمت اور کاروبار کے خلاف نظر آتے ہیں انہیں اپنے روایتی معاشرے میں یہ سب غلط لگتا ہے۔ عورت کو رائے دینے کا وراثت میں حصہ دینے کا تصور بھی ان میں موجود نہیں۔ مگر دہشتگردی کے لیے انہیں استعمال کرنا نجانے کیوں جائز سمجھتے ہیں۔ وزیر داخلہ بلوچستان ضیاءلانگونے درست کہا ہے کہ کالعدم تنظیمیں ایسا کرنا بند کریں۔ کیونکہ یہ ہمارے اسلامی اور قبائلی معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ پھر بھی اگر کوئی ایسی حرکت کرتا ہے تو پھر قانون کو اپنا راستہ بنانا آتا ہے۔ عورتوں کی گرفتاری اچھی بات نہیں لوگوںکو یہ بہت گراں گزرتی ہے۔ مگر لوگوںکے تحفظ کے لیے دہشت گردی میں ملوث کسی بھی مرد و عورت کے ساتھ رعایت برتنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے مجبوراً ایسی خواتین کو گرفتار کرنا پڑتا ہے جو دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرہ ہوں۔ 
٭٭٭٭٭
جو الیکشن میں ایک روز کی تاخیر کرے گا اسے پھانسی تک لے جاﺅں گا: علی امین گنڈا پور 
بے شک علی امین ایسا کر سکتے ہیں، ہمیں ان کی صلاحیتوں پر پورا اعتماد ہے، وہ جو کہتے ہیں کرکے دکھاتے ہیں۔ ماضی میں وہ ایسا کر کے ملک بھر سے داد سمیٹ چکے ہیں۔ جب انہوں نے دیدہ دلیری کے ساتھ ہاتھ میں پکڑی مئے گلفام کی دو بوتلوں کو چشم زدن میں لذیذ شہد اور گیسودار تیل میں تبدیل کر دیا۔ کیا کوئی اور ایسا کر سکتا ہے۔ اب اگر وہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن میں ایک روز کی تاخیر کرنے والے کو میں پھانسی تک لے جاﺅں گا تو درست ہی کہتے ہوں گے۔ یہ اب وہی جانتے ہیں کہ پھانسی کون دے گا۔ اگر خود دینے کی بات ہے تو یہ سراسر قتل کی دھمکی ہے۔ اگر عدالتوںمیں گھسیٹ کر کیفر کردار تک پہنچانا ہے تو یہ عمل اتنا طویل ہے کہ غالب جیسا صابر جو ساغر ومینا کو صرف سامنے دیکھنے کا متمنی تھا۔ وہ بھی 
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک 
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک 
کہنے پر مجبور نظر آیا ہے۔ مگر لوگوں کو یقین ہے علی امین گنڈا پور جو چاہے کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی باتوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی جادوئی فارمولا موجود ہے ۔ان کے پہلے چمتکار کی ویڈیوز موجود ہیں جو چاہے اسے کرشمے کی تصدیق کر سکتا ہے۔ بہرحال لوگ ان کی صلاحیتوں کے قائل ہیں۔اب ان کا کام ہے کہ وہ الیکشن کی راہ میں ایک دن کی بھی رکاوٹ ڈالنے والے کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں،انہیں کس طرح پھانسی چڑھاتے ہیں۔ بس پہلے ذرا تعین تو کر لیں کہ الیکشن کی راہ میں رکاوٹ کون ڈال رہا ہے۔ 
٭٭٭٭٭
لندن میں اپنی فلم کے پریمیئر شو میں جمائمہ نے سبز رنگ کا لباس پہنا 
عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ کی بے شمار صلاحیتوں کے تو پہلے ہی لوگ معترف ہیں۔ ان کی پاکستان سے محبت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے عمران سے بھی محبت کی اور شادی بھی کر لی۔ مگر شاید حالات نے وفا نہ کی یا خان صاحب جمائمہ کی محبت کو سنبھال نہ سکے اور دو بچوں کی پیدائش کے بعد جمائمہ خان طلاق لے کر علیحدہ ہوئی اور ایک بار پھر جمائمہ گولڈ سمتھ بن گئی۔ اس کے باوجود اس نے عمران خان کے دونوں بیٹوں کو سنبھالا ان کی پرورش اب تک کر رہی ہے۔ اس وقت وہ خان کے تین بچوں کو حسن و خوبی کے ساتھ سنبھال رہی ہیں۔ یہ ان کے ایک بہترین خاتون اور ماں ہونے کا ثبوت ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب میں ایسے بچے جنہیں باپ قبول نہ کرے ماں بھی نہیں سنبھالتی اور وہ سرکاری اداروںمیں پلتے ہیں۔ اس کے علاوہ جمائمہ کی دوسری محبت پاکستان سے ہے جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ آج کل جمائمہ کافی سوشل زندگی بسر کر رہی ہیں۔ مشرقی اور مغربی نوجوان لڑکوں ، لڑکیوں کے رشتے کرا کر دو تہذیبوں کے درمیان پل کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اب انہوں نے ایک فلم بھی بنائی ہے۔ جس کے پریمیئر میں انہوں نے پاکستانی قومی پرچم کے رنگ کی مناسبت سے سبز لباس پہنا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سبز رنگ کی نیل پالش بھی لگائی تھی جس پر چاند تارا بناہوا۔ اس طرح وہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتی نظر آئی ہیں جس پر پاکستانی ان سے بہت خوش اور متاثر نظر آئے ہیں ۔ بے شک لیڈی ڈیانا کے بعد وہ دوسری یورپی خاتون ہیں جو پاکستان سے محبت کرتی ہیں اور کسی بھی جگہ پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتیں۔ لندن میں گزشتہ روز وہ واقعی پاکستانی نمائندہ لگ رہی تھیں۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن