یہ پلٹزر ایوارڈ والے کہاں مر گئے ہیں؟
یہ جو گورے ہیں ہر بار ہمارے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔اپنے ساﺅتھ افریقہ والے کیون کارٹر کو تصویر پر ایوارڈ دیتے ہیں اور خود کشی کا موقع بھی!
ہماری دفعہ ہی کیوں موت پڑتی ہے؟ان کی توجہ ہمارے ٹی وی چینلز پر کیوں نہیں؟
ٹھہرئیے پہلے اگر آپ یہ نہیں جانتے کہ کیون کارٹر کون تھا اور پلٹزر ایوارڈ کیا ہے اور ان کا ہمارے معاملے سے کیا تعلق ہے ؟ تو ہم بتاتے ہیں۔
پلٹزر ایوار ڈ صحافت،ادب اور میوزک کے شعبوں کا اعلیٰ ترین بین الاقوامی ایوارڈ ہے۔کولمبیا یونیورسٹی امریکا سے اس کا جراءہوا جو اب تک ان تینوں شعبوں سے متعلق جاری ہے۔کیون کارٹر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک فوٹو گرافر تھے جنہیں 1994ءمیں یہ ایوارڈ ملا۔ایوارڈ انہیں اپنی 1993ءمیں سوڈان میں جاری خانہ جنگی اور شدید قحط کے دوران بنائی گئی ایک تصویر پر ملا تھا۔ان دنوں سوڈان میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو عوام کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ان کی باہمی لڑائی میں لوگ مررہے تھے اور جو بچ رہنے والے تھے انہیں قحط آہستہ آہستہ کھا رہا تھا۔ کیون کارٹر کو ایک ویران جگہ پر ایک بچہ دکھائی دیا جس کے بدن پر گوشت کا کوئی ریشہ تھا نہ کپڑے کا ایک دھاگہ۔ یہ بچہ آہستگی سے آگے کو گھسٹ رہا تھا۔کیون کے دیکھتے ہی دیکھتے ایک گدھ کہیں سے اڑتا ہوا آیا اور بچے کے قریب زمین پر بیٹھ گیا۔گدھ خاموشی سے بیٹھا رہا وہ دراصل انتظار کررہا تھا کہ بچہ مرے اور وہ اسے نوچنا شروع کرے۔کیون یہ سب کچھ سمجھ گیا اور اس نے کچھ دیر انتظار کیا کہ یہ تماشا شروع ہو اور وہ تصویر بنائے۔کچھ دیر بعد اسکے ساتھیوں نے آواز دی کہ وہ لوگ جس ہیلی کاپٹر پر آئے تھے وہ اڑنے والا ہے بالاخر اس نے ایک ایسے زاویہ سے تصویر بنائی کہ جس میں وہ یہ بتاسکے کہ گدھ اس بھوکے بچے کی موت کا منتظر ہے تاکہ وہ اپنا پیٹ بھر سکے۔یہ تصویر غالبا نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی اور جلد ہی پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔اس تصویر کی پذیرائی اگلے سال فوٹو گرافی کی دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ حاصل کرنے کا موجب بنی۔ اس ایوارڈ کے بعد ظاہر ہے کیون کارٹر کو بھی بہت شہرت ملی۔پھر کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے اس دم توڑتے بچے کو بچانے کیلئے کچھ کیا تھا؟ کچھ دیر توقف کے بعد اس نے کہا کہ وہ تصویر کیلئے درست لمحے اور زاویہ کی تلاش میں مصروف تھا اور پھر ذہن پر جلدی بھی سوار تھی کہ اس غیر محفوظ علاقے میں جس ہیلی کاپٹرکے ذریعے پہنچا تھا وہ اڑنے والا تھا ۔اسکے بقول اس نے تقریبا بھاگ کر اس اڑتے ہیلی کاپٹر میں سواری کی تھی۔ جس پر اسے بتایا گیاکہ اس دن وہاں ایک نہیں دو گدھ موجود تھے،اور دونوں بچے کی موت کے منتظر تھے ایک پیٹ کی بھوک کیلئے اور دوسرا شہرت کی لالچ کیلئے۔ویسے تو گدھ بھی پیٹ بھرنے کے بعد لالچ میں زیادہ کھا لیتا ہے اور پھر الٹیا ں کرتا ہے۔یہ موضوع پھر کسی دن سہی۔آپ کو اس سوڈانی بچے اورقریب المرگ پاکستانی معاشرے میں کوئی مماثلت نظر آتی ہے ؟غیر اعلانیہ دیوالیہ پاکستان جس کے عوام بھوک اور مہنگائی کے ہاتھوں انچ انچ رینگ رہے ہیں اور جس کے گدھ نما دشمن ،سیاسی انتشار اور باہمی پھوٹ کے زخموں سے چور اسکے بدن پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔
ہمارا میڈیا …یہ میرے آٹھ سے گیارہ کے پرائم ٹائم کے کیمرے سنبھالے کیون کارٹرکیا کررہے ہیں؟
یہ درست ہے کہ ہیجان اور غیر یقینی بکتی ہے ، میڈیا بالخصوص اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ٹاک شوز کی ریٹنگ اور وی لاگ کے ویوز بہت تیزی سے اوپر جاتے ہیں ،کوئی لاہور تو کوئی لندن سے دون کی لاتے ہیں۔کینیڈا والے کیوں پیچھے رہیں یہ بتانے میں کہ ان کے خیال میں کیا ستیاناس ہو چکا ہے اور کیا سوا ستیاناس ہونے والا ہے۔لگتا ہے ان سب کے پاس وہ جادوئی گولا ہے جس میں ان کو سب نظر آتا ہے،مگر …!
سب کے پاس معاشی اعشاریوں سے بھرے اعداد وشمار ہیں جو بتاتے ہیں کہ منزل مزید کتنی دور ہوگئی ہے ، ملک ڈوبنے والا ہے۔ مہنگائی، بے روز گاری اور لاقانونیت اپنے جوبن پر ہے مگر ہمارے سیاسیئے فوج کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں ،اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
عمران خان چاہتے ہیں کہ ان کے کہنے پر فوج پی ڈی ایم کی حکومت کو چلتا کرے اور الیکشن کرادے۔پی ڈی ایم کی جماعتیں چاہتی ہیں کہ الیکشن دور سے مزید دور ہوجائیں اور اگر کرانے ضروری ہی ہیں تو فوج ان کی حکومت کو بزور اٹھا کر باہر پھینکے تاکہ وہ مظلوم بن جائیں اور ان کے سیاسی نقصان کی تلافی ہوسکے۔کون سا آئین اور کیسا آئین …پھاڑ کر پھینک دیں ایسی دستاویز کو جو سیاسی نقصان کا سبب ہو!مگر فوج نے بھی اس مرتبہ ٹھان لی ہے کہ وہ اپنا کندھاکسی کو استعمال نہیں کرنے دے گی بقول صادق نسیم
ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے
ایسے میں میرے صحافی اور غیر صحافی دوست وہیں کھڑے ہیں کہ صحافت کا کام صورتحال بتانا اور دکھانا ہے ،درست کرنا نہیں۔کسی فریق کی طرفداری یا صلح کرانا بھی نہیں۔یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک صحافی ہمیشہ غیر جانبدار ہوتا ہے ،گویا اب آگ میں جلتے شخص کی ویڈیو بنانا ہی صحافت ٹھہری‘پاکستان ڈوب رہا ہے اور سب مل کر اس کی تصویر اور ویڈیو کشی کررہے ہیں اور یہ سب کچھ غیر جانبداری کے نام پر ہورہا ہے۔ معاف کیجئے گا ہماری اس نام نہاد ''غیر جانبداری'' کا بھرم کب کا کھل چکا ، ٹی وی کی آئی ڈی اور صحافی کی شکل دیکھ کر عوام سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کیا بات کرنے والا ہے؟اہل صحافت کی بھی کچھ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سب کی پہچان پاکستان سے ہے تو کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم پاکستان کیلئے کچھ دن قلم ،کیمرے اور مائیک ایک طرف رکھ دیں ،ریٹنگ اور ویوز کو بھول جائیں ، بالٹی تلاش کریں۔ مٹی ،ریت اور پانی سب کو استعمال کر کے اس آگ کو بجھائیں کسی بھی دوسرے شخص سے آپ سب کو زیادہ پتہ ہے کہ کتنی آگ لگی ہے ،کتنا نقصان ہوچکا ہے اور کتنا ہونیوالا ہے ؟ویسے کیون کارٹر نے بعد میں احساس جرم اور ندامت میں خود کشی کرلی تھی ، مگر میں یہ سب آپ کو یہ کیوں بتارہا ہوں ؟ آپکو تو یہ بات پہلے ہی سے معلوم ہے!
پاکستانی کیون کارٹروں کے نام
Feb 21, 2023