خورشید قصوری اور مسئلہ کشمیر


فروری کا مہینہ شروع ہواتو یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا، یہ دن ہر سال پانچ فروری کو منایا جاتا ہے اور پوری دنیا کے حریت پسند انسان کشمیریوں کیلئے استصواب رائے کے حق پر زور دیتے ہیں ۔فروری کے آخری دنوں میں مقبول بٹ اور افضل گرو کی شہادتوں کو یاد کیا جاتا ہے ۔اس بار تو قومی پارلیمنٹ نے بطور خاص ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی۔
کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے مابین کئی جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔مگر اسکے ساتھ ساتھ اس مسئلے کے حل کیلئے دونوں ملک بار بار مذاکرات بھی کرتے رہے ہیں ۔مجھے مشرف دور کے آگرا مذاکرات یاد آ رہے ہیں جب مشرف سفید شیروانی پہن کرآگرا پہنچے تھے اور ایل کے ایڈوانی کے ساتھ انکے طویل مذاکرات ہوئے۔ دونوں ملکوں کا میڈیا یہ توقع لگائے بیٹھا تھا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوئی ٹھوس فارمولہ تجویز کرلیا گیا ہے لیکن اچانک ناشتے کی میز پر میڈیا سے گفتگو کی اور اسکے ساتھ ہی ساری امیدیں دم توڑ گئیں اور مشرف کو مایوسی کے عالم میں واپس آنا پڑا ۔مگر لگتا ہے کہ صدر مشرف نے دل نہیں چھوڑا اور انہوں نے پس پردہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔اس ضمن میں ایک اہم اعلان اس وقت کے وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی نے کیا ۔انہوںنے یک طرفہ طور پر سیز فائر کا اعلان کر دیا۔اس سے کنٹرول لائن کے دونوں طرف بسنے والے کشمیریوں کو بے حد سکون محسوس ہو ا ۔وہ دونوں طرف سے آئے دن کی گولہ باری سے محفوظ ہو گئے تھے ۔پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کیلئے کئی اور بھی اقدامات روبہ عمل لائے گئے جن میں سب سے اہم مظفر آباد سری نگر دوستی بس کا اجرا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ کنٹرول لائن پر دو طرفہ تجارت کیلئے چند مقامات کو کھول دیا گیااور بچھڑے خاندانوں کی باہمی ملاقاتوں کیلئے بھی بعض مقامات کا تعین کیا گیا ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اس دور میں جناب خورشید قصوری وزارت خارجہ کے منصب پر براجمان تھے۔ اور ان تمام اقدامات کے پیچھے ان کی کوششوں کا بڑا عمل دخل تھا ۔خورشید قصوری نے ایک کتاب لکھ کر انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے ایک قابل عمل معاہدے تک پہنچ گئے تھے ۔اس معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا گیا تھا اور اسکی صرف ش ق درست کرنے کا کام باقی تھا یعنی قومہ اور فل سٹاپ وغیرہ پر کام جاری تھا ۔اس کیلئے صرف چند مزید ہفتے درکار تھے کہ پاکستان میںعدلیہ تحریک شروع ہوگئی اور ملک میں ایسا انتشار برپا ہوا کہ کشمیر پر معاہدے کا ڈرافٹ پس پردہ چلا گیا ۔عدلیہ تحریک کے گرد و غبار میںکسی کو یاد بھی نہ رہا کہ برصغیر کی قسمت کا فیصلہ کرنے میں کتنا اہم کام کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔عدلیہ تحریک نے نوے لاکھ کشمیریوں کی قسمت بھی سربمہر کردی ۔وہ دن اور آج کا دن کشمیری عوام بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے۔
خورشید قصوری ایک مدبر سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں انکے اجداد تحریک آزادی میں پیش پیش رہے اور برصغیر سے انگریز کو رخصت کرنے میں عبد القادر قصوری کی انتھک جدو جہد کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔خورشید قصوری کے والد محمود علی قصوری ایک مایہ ناز وکیل تھے ان کی دانش اور ذہانت کا ڈنکا سرحد کے دونوں طرف بجتا رہا ۔قصوری خاندان بھارتی حلقوں کی قربت کا بجا طور پر دعویٰ کر سکتا ہے‘اس کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ خورشید قصوری نے اپنی خود نوشت کی تقریب رونمائی بھارت میں بھی کرائی اور اس حال میں کرائی کہ بھارتی انتہا پسندوں نے انکے میز بان کے منہ پر سیاہی پھیر دی تھی ۔قصوری خاندان سے میرا بھی ایک ذاتی حوالہ موجود ہے۔ تحریک آزادی کے دور میں صوفی ولی محمد ہمارے گاﺅں فتوحی والا میں قیام پذیر ہوئے ۔میرے والد میاں عبد الوہاب انکے میز بان تھے۔ ہمارے خاندانی ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا محی الدین قصوری تواتر کے ساتھ ہمارے گھر صوفی ولی محمد سے ملاقاتوں کیلئے آیا جایا کرتے تھے ۔
یہ گواہی تاریخ نے بھی دی ہے اور قصوری خاندان پر عبداللہ ملک اور اسحاق بھٹی کی لکھی ہوئی کتابوں میں بھی ان حقائق کا تذکرہ موجود ہے ۔اس پس منظر کی وجہ سے میں اپنے آپ کو خورشید قصوری کے بہت قریب سمجھتا ہوں ۔ایک صحافی ہونے کے ناطے سے بھی میں خورشید قصوری کی حیثیت اور مرتبے کا دلی طور پر قائل ہوں اور ان کی ذہانت کا معترف ہوں ۔میں نے پچھلے دنوں کوشش کی کہ خورشید قصوری سے کسی طرح رابطہ ہو جائے اس کیلئے میں نے انکے مقرب خاص احسان ناز کو بھی فون کیا اور پھر ایک فون میں نے براہ راست قصوری صاحب کو بھی کیا ۔معلوم نہیں وہ کس ذہنی مصروفیت میں مبتلا تھے کہ وہ جلدی میں میری پوری بات نہ سن پائے اور انہوں نے بس اتنا کہا کہ وہ احسان ناز سے بات کرکے مجھے جواب دینگے ۔میں لگاتار احسان ناز صاحب سے رابطے میں ہوں اور میری کوشش ہے کہ کسی طرح خورشید قصوری صاحب سے میری ایک تفصیلی ملاقات ہو جائے اور میں ان سے وہ ساری کہانی سن سکوں جو کشمیر پر معاہدے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور جسے دن کی روشنی دیکھنا نصیب نہیں ہوئی ۔خورشید قصوری صاحب کا دور وزارت کئی رازوں کا امانت دار ہے ۔یہی وہ وقت تھا جب نائن الیون کے حوادث کے بعد وار آن ٹیرر شروع ہوئی اور پاکستان کو اس جنگ میں امریکہ کا حریف بننا پڑا ۔اس دور میں قصوری صاحب اپنے دولت کدے پر صحافیوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ انہیں اس عمل پر فخر تھا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بے حد قریبی تعلقات قائم ہیں اور امریکی حکومت کے ہم افراد سے خود ان کا ذاتی رابطہ قائم ہے۔ یہ سارا قصہ ایک طرف رہا میری دلچسپی یہ ہے کہ خورشید صاحب کے دور وزارت میں مسئلہ کشمیر پر جو پیش رفت ہوئی اس کی ایک ایک تفصیل انکی زبان سے سنوں اور اپنے کالموں کے ذریعے نوائے وقت کے قارئین کو اعتماد میں لوں۔مجھے قوی امید ہے کہ میں وہ سارے حقائق جاننے میں کامیاب ہو جاﺅں گا جن کا ذکر قصوری صاحب نے اپنی کتاب میں بھی نہیں کیا ۔تاریخ کی امانت بہر حال قوم تک پہنچنی چاہئے۔یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک سنگین مسئلے کے حل کیلئے کامیابی سے معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا جائے مگر ایک روز عدلیہ تحریک کا غلغلہ بلند ہو اور سارا کیا دھرا کھوہ کھاتے میں چلا جائے۔ عدلیہ تحریک سے پاکستان میں عدل کا نظام تو مستحکم نہ ہوا‘ الٹا عدلیہ تحریک نے کشمیری عوام اور برصغیر کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کو ایٹمی جہنم کے قریب دھکیل کر رکھ دیا ۔خطے کے ان دشمنوں کے چہروں سے نقاب ضرور اٹھنا چاہئے ۔ 

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن