آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑنے کی ہزیمت کا بدلہ عوام سے لیا جائے گا ، اس لیئے ایک سو ستر ارب روپے عوام کی جیبوں سے نکلوانے کے لیئے منی بجٹ متعارف کرا دیا گیا ہے ، وصولیوں کے اس ہدف کا ایک ایک پیسہ صرف اور صرف عوام سے ہی وصول کیا جائے گا ، چاہے غریب چیتھڑوں میں آ جائے ۔ لیکن کیا کریں حکمرانوں کی مجبوری ہے، آئی ایم ایف کا دباﺅ ہے، پہلے سے لئے گئے قرضے کی قسطیں ادا کرنی ہیں ، عوام چاہے کتنا ہی چیخ و پکار کیوں نہ کرلیں ، کتنا ہی شور مچا لیں کہ اس اشرافیہ کی عیاشیاں ختم کی جائیں ، بیوروکریسی میں غیر ترقیاتی اخراجات ختم کئے جائیں۔ ریاستی اداروں کے بجٹ میں تخفیف کی جائے، افسر شاہی کی غیر ضروری مراعات پر قدغن لگائی جائے، ہر وزارت کے بجٹ میں کفایت شعاری کی بنیاد پر کٹوتی کی جائے تو یہ ایک سو ستر ارب روپے کا ہدف حاصل کرنا کوئی اتنا مشکل کام نہیں ۔ لیکن فرشی سلام ہے ہماری حکمران اشرافیہ کو جس نے ایک سو ستر ارب روپے میں سے ایک روپے کا حصہ ڈالنا بھی روا نہیں سمجھا۔ اپنی تمام مراعات مفت پٹرول ،بجلی، پانی اور دیگر مراعات میںسے کسی کوارٹر سے ایک روپے کی بچت کا اعلان نہیں کیا گیا ، وزارت خزانہ نے معاشی بحران شروع ہونے کے دوران ایک میمورنڈم جاری کیا تھا ۔جس میں کہا گیا کہ ملک میں کوئی مالیاتی ایمرجنسی نافذ نہیں کی جا رہی، بلکہ حکومت نے اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایک کفایت شعاری کی مہم شروع کر دی ہے جس کے تحت غیر ضروری اخراجات ختم کئے جائیں گے ، لیکن حرام ہو جو ایک روپیہ بھی اشرافیہ کی مراعات سے لیا گیا ہو۔ گزشتہ چند ماہ میں ہی اہم سرکاری اداروں میں نئی لگژری گاڑیوں کے فلیٹ خریدے گئے ، تمام تر غیر ترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات اسی انداز میں جاری ہیں ، نہ کسی کا مفت پٹرول بند ہوا نہ سرکاری اخراجات پر غیر ملکی دورے ، سرکاری اجلاسوں میں کھابے اسی انداز میں تناول کیئے جا رہے ہیں ، کھربوں روپے کی زمینوں پر قائم گاف کلبزاور جمخانے اسی طرح آباد ہیں ۔ ہمارے حکمران، سیاستدان اور افسران سمیت سب ہی مراعات کے سمندرمیں ڈوبے ہوئے ہیں اور کسی طور بھی ان مراعات کا رتی بھر یا ذرہ برابر بھی حصہ قربان کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ عوام لاکھ شور مچائیں کہ مراعات یافتہ طبقے کے مفت کھابوں اور مفت کھاتوں کو ختم کیا جائے،شاہ خرچیاں بند کی جائیں ، پیٹ پہ پتھر نہ باندھا جائے لیکن کم از کم سرکاری خزانے پر تو ہاتھ ہولا رکھا جائے، لیکن صد افسوس کہ ان جاری شاہ خرچوں کی قیمت اسی سے وصول کی جائے گی جو پیٹ پر پتھر باندھنے پر مجبور ہے۔ بس اسی تناظر میں حقیقت حال یہ ہے کہ ہم تقریباً دیوالیہ ہو چکے ہیں ، اس بات کا اعتراف وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کر چکے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہو نہیں رہا بلکہ ہو چکا ہے اور ہم ایک دیوالیہ ملک میں رہ رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے باوجود نہ تو فوری طور پرقومی خزانہ بھرے گا، نہ ہی غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائرابل پڑیں گے، نہ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتیں واپس آئیں گی، ڈالر کو آزاد کر کے جتنا بڑھا دیا گیا ہے اب واپس اوقات پر نہیں آئے گا، اس لیئے سونے کی قیمت بھی بلند ترین سطح پر ہی رہے گی، آئی ایم ایف سے نویں نظر ثانی کے تحت جو چند ڈالر ملیں گے وہ قرضوں کی ادائیگی میں ہی نکل جائیں گے اور پھر اگلی قسط کے لیئے فکر لاحق ہو جائے گی۔ قرض کی مے پی جا رہی ہو تو پھر فاقہ مستی کیا رنگ لاتی ہے یہ کوئی عوام سے پوچھے۔ ملک میں مالیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کے لیئے کچھ تجاویز منظر عام پر آئی تھیں جس کے تحت افسر شاہی کی مراعات اور شاہ خرچیوں پر کٹ لگانے کی بات کی گئی تو فوری طور پر کیبنٹ ڈویژن نے ایک آفیشل میمورنڈم جاری کیا کہ مالیاتی ایمرجنسی لگنے کی افواہوں پر کان نہ دھریں ، حکومت سرکاری خزانے سے جاری کسی بھی نوعیت کے غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اوران اخراجات کی راہ میں کوئی اعتراض مانع نہیں ہے، نہ ہی حکومت کسی بھی ادارے یا وزارت یا اسکی کسی ڈویژن کے بجٹ میں کسی قسم کی کمی کا کوئی ارادہ رکھتی ہے اس لئے مراعات یافتہ طبقہ کو قطعی فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، جو عوام پٹرول مہنگا ہونے پرسرکاری اشرافیہ کا مفت پٹرول بند کروانا چاہتے ہیں، حکومت کا ایسا نہ ہی کوئی ارادہ ہے نہ ہی حکومت میں جرا¿ت ہے۔ ہاں جو کچھ بھی وصولیاں کرنی ہیں، انکے لئے غریب عوام حاضر ہیں جو پہلے بھی اشرافیہ کو پالنے کے لئے ٹیکس ادائیگی کے لیئے دستیاب ہیں۔ غریب نے پہلے ہی اپنے پیٹ پر ایک پتھر باندھا ہوا ہے اب دوسرا پتھر بھی باندھ لے گاتو کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا ، یہ قربانی تو عوام ہی دے سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے بھی ایسی قربانی دیتے آئے ہیں ۔ اور یہ قربانی انکے لئے آسان ہے کیونکہ انہی اس کی عادت ہے باقی رہا اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ تو انکی قربانی کسی بھی استحصالی معاشرے میں جائز و قبول نہیں ہو تی۔ ہمارے نو آبادیاتی نظام میں پروان چڑھنے والے آج بھی اپنے فرنگی آقاﺅں کی میراث کا بھر پور فائدہ اٹھا رہے ہیںاور اس میراث کے حق سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہیں ۔وہ عوام کو ضرور اہمیت دیتے ہیںکیونکہ عوام نہ ہوں تو انکی حاکمیت نہ ہو گی، عوام نہ ہو ں گے تو رعایا کون ہو ں گے، عوام نہ رہے تو افسر شاہی کس کی خدمت کریگی۔ عوام کا وجود نہ رہا تو آئی ایم ایف سے قرضہ کس کے نام پر مانگا جائے گا، عوام نہ رہے تو کس کو جواز سنایا جائے گا اور بہلایا جائے گا کہ ملکی معیشت اب بہتر ہو رہی ہے، مشکل فیصلے کرنا ہونگے، کڑوا گھونٹ پینا ہو گا، آئی ایم ایف نے ہاتھ باندھ دیئے ہیںاس لئے عوام کو کوئی ریلیف دینا بھی چاہیں تو نہیں دیا جا سکتا۔ کس کو اپنی مجبوریاں گنوائی جائیں گی، کس کا نام لے کر بے لوث خدمت اور بے خوف قیادت کا نعرہ لگایا جائے گا ، یاد رکھیئے گا عوام ہیں تو ملک بھی ہے، ریاست بھی ، حکومت بھی ہے، افسر شاہی بھی ہے اور اشرافیہ بھی ہے۔ عوام نہ رہے تھے تو تمام دوکانیں بند ہو جائیں گی، وہ دوکانیں جن سے اشرافیہ کا کاروبار زندگی چلتا ہے اور وہ دوکانیں جن میں عوام فروخت ہوتے ہیں ۔
کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ گلیوں اور سڑکوں پر بھیک مانگنے کے لئے دولے شاہ کے چوہے کام پر لگائے جاتے ہیں ، ایک ہٹا کٹا صحتمند مجاور ان چوہوں کو ہانک رہا ہوتا ہے ، لوگ ان چوہوں کی قابل رحم حالت دیکھ کر اسے بھیک دیتے ہیں اور یہ بھیک مکمل طور پر اس مجاور کے پاس جاتی ہے۔ یہ مجاور اصل میں ہماری اشرافیہ ہے اور عوام انکے دولے شاہ کے چوہے ہیں ، اگر یہ چوہے قابل رحم حالت میں نہ ہوں تو کوئی بھیک نہ ملے گی اور ان مجاور نما اشرافیاﺅں کے ذرائع آمدن بند ہو جائیں گے۔