پاکستان آج معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اس وطن عزیز کو اس لیے حاصل کیا گیا تھا کہ لوگ ہندو و¿ں کے معاشی تسلط سے آزاد ہو کر ایک خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع حاصل کر پاہیں گے مگر اس ملک کے با اثر کارپردازوں نے ان مفلوک الحال عوام کے خون کا آخری قطرہ بھی اپنی رگوں میں اتار لیا ہے۔ مگر اب اس کی مردہ لاش پر مہنگائی، ٹیکسوں اور بیروزگاری کے ایسے تازیانے برسا رہے ہیں کہ الامان و الحفیظ!
قوم کی گردن پہ سوار ان پیرانِ تسمہ پا خون آشام چمگادڑوں کی تیسری نسل کی پیاس بھی تشنہ ہے۔ یہ اربوں کھربوں لوٹ کر اپنے بچوں اور انکی جائز، ناجائز اولاد وں کو امریکہ، لندن، دوبئی اور سپین میں پر تعیش زندگی کی نعمت غیر مترقبہ دینے کے بعد بھی ہماری جان نہیں چھوڑ رہے ابھی بھی ہمیں غلام بنانے پر مصر ہیں اگر ریٹائرڈ جنرلز، بیوروکریٹس، سیاست دانوں اور وڈیروں، سرمایہ داروں، لینڈ مافیاز کے گھر بار، اولادیں معاشی مفادات غیر ممالک میں ہیں تو ہماری سیاسی رہنمائی کی خواہش ترک کر دیں۔ ہماری درخواست ہے میاں نواز شریف، عمران خان اور تمام طاقتور افراد سے کہ جب آپ کے بچے ہی اس ملک میں آباد نہیں ہیں تو آپ ہمارے پچوں کو آس امید کا جھوٹا لارا لگا کر انہیں اپنا اسیر نہ بنائیں وہ مہنگائی اور بیروزگاری کے ہاتھوں مریں یا طالبان کے ہاتھوں وہ اپنی قیادت اپنے جیسوں سے ڈھونڈ لیں گے ٹیکس اور معاشی قربانی کمزور عوام بکروں کی طرح دیں اور اشرافیہ پر باہر والا جانور ہونے کے ناطے حرام۔ مقدس گاو¿ ماتا کی طرح سابق افسران اور حکمرانوں کو مراعات۔ پروٹوکولز اور سیکیورٹی کے نام پر اربوں کے اخر اجات عوام کی خون پسینے کی کمائی سے مگر محافظ اسلحہ بردار بمع سیکورٹی محفوظ اور سیکورٹی کے ضرورت مند گارڈز کو ادائیگی کے باوجود غیر محفوظ۔
دنیا کے کسی مذہب ریاست کا یہ چلن نہیں۔ اس پر مستزاد نا اہلی، وژن اور سوچ سے نا واقف قیادت __ریاست کے ہر شعبے میں قحط الرجال ۔ رات ڈھلتی دکھائی دیتی ہے ، دن نکلتا نظر نہیں آتا ۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو ہمیں بہت کم صنعتیں ملیں مگر پی آئی سی آئی سی اورپی آئی ڈی سی جیسے پبلک سیکٹرکے اداروں نے صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا کر تے ہوئے ہماری معیشت کے درست رخ کا تعین کر دیا کیونکہ پاکستان میں صنعت سازی ہی معاشی ترقی کی ضامن ہے۔
1951ء میں ہندوستان اور برطانیہ نے اپنی کرنسی کو ڈی ویلیوکیا اور پاکستان پر دباو¿ ڈالا کہ وہ بھی روپے کی قیمت میں کمی کرے پاکستان نے بغیر سوچے سمجھے ا نکار کر دیا اس کے نتیجے میں ہمیں اپنی کرنسی کو سٹرلنگ پونڈ سے ڈی لنک کرنا پڑ گیا اور پاکستان نے اس کی شرح مبادلہ کا تعین ڈالر کے ساتھ متعین کر نا شروع کر دیا۔ اسی دوران جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کی جنگ شروع ہو گئی۔ شمالی کوریا کی پشت پناہی چین اور سویت یونین کر رہے تھے جبکہ جنوبی کوریا کے پیچھے امریکہ کی سپورٹ تھی۔ خدشہ تھا کہ کہیں تیسری عالمی جنگ نہ شروع ہو جائے دنیا نے اشیاءضرورت مہنگے داموں خریدنا شروع کر دیں۔ پاکستان کی اشیاءبھی باہر کے ممالک میں اچھی قیمت پر خو ب بکیں۔ ہمارے برآمد کنندگان نے خوب ڈالرز کمائے اور پہلی دفعہ ہمارا تجارتی توازن مثبت رہا اس کے بعد 75 سالوں میں تین مزید دفعہ مثبت رہا باقی 71 سال خسارے میں رہا ایوب خان کے دور میں صنعت کاروں کو بے جا مراعات دی گئیں۔ خیال تھا کہ جب ان کا "رج" ہو جائے گا تو پیسہ نچلے طبقے تک سرایت کرے گا، مگر کون جانتا ہے کہ پاکستانی کاروباری حضرات کا پیٹ بہت بڑا اور نسلوں کی بھوک کا شکار ہوتا ہے۔ وہ برتن کی کھرچن بھی غریب کے لیے نہیں چھوڑتے اس کے نتیجے میں پیسہ 22 خاندانوں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوگیا دولت کی غیر منصفانہ تقسیم جو آج بھی جاری ہے، اسقدر بڑھ گئی کہ بھٹو صاحب نے سوشلزم کے رومانس میں صنعتوں حتی کہ آٹے کی چکیوں اور دو دو کمروں کے سکولوں کو بھی 1972 میں قومیا لیا۔ ایوب دور میں صنعت کاروں نے مزدوروں کو جائز اجرتیں نہ دیں تو جب ان کی صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا تو طاقتور ٹریڈ یونینز اور بیوروکریسی نے ان اداروں کو خوب لوٹا۔ مزدوروں نے کہا کہ اب کام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ریلوے، واپڈا‘ سٹیل ملز اور دوسرے تمام محکموں میں نکمے اور نالائق جیالوں کی خوب بھرتیاں کی گئیں اور آج یہ سٹیٹ انٹر پرائز 1700 ارب سالانہ خسارے میں ہیں مگر بھٹو کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے ۔(جاری)
ہمارا دوسرے پانچ سالہ منصوبہ 1960 سے لیکر 1965 تک انتہائی شاندار رہا ہماری معاشی ترقی افزائش نمو 6.2 فیصد رہی جو چاپان کے بعد جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ تھی قومی آمدنی میں 20 فیصد اور برآمدات میں 15 فیصد اضافہ ہوا پھر بھٹو اور جنرل آختر نے ایوب خان سے پوچھے بغیر کشمیر میں آپریشن جبرالٹر شروع کر وا دیا خیال تھا کہ محدود پراکسی جنگ کشمیر میں ہی رہے گی (بعد میں یہی کام مشرف نے کیا اور نواز شریف کی منظوری کے بغیر کارگل کا آپریشن کروا دیا) مگر ہندوستان نے کھلی جنگ کا آغاز لاہور اور سیا لکوٹ کے محافظ پر کردیا ہم نے بمشکل اپنا دفاع کیا کون جیتا کون ہارا اس پر بات کرنی. مشکل مگر دنیا نے ہماری معاشی مدد بند کر دی اور اس کے بات ہمارا کوئی ترقیاتی منصوبہ اپنے اہداف پورے نہ کرسکا مشرقی پاکستان الگ ہو گیا 1973 میں بھٹو نے روپے کی قدر میں 131 فیصد کمی کی ایک ڈالر جو 3.40 روپے کا تھا 11 روپے کا ہو گیا بعد میں ڈالر 10 فیصد کمی سے 9.90 پیسے کا ہو گیا اس کے بعد ہم امریکہ کے کرائے کے قاتل بن گئے سویت یونین کی فوجیں افغانستان میں قابض ہو گیں ہمارے سیکورٹی اداروں کو خوب ڈالرز ملے جرنیلوں کی نسلیں کھرب پتی ہو گیں اور پاکستان کلاشنکوف اور ہیروین کلچر کا شکار ہو گیا جاگیر داروں، وڈیروں، جرنیلوں کے ساتھ ساتھ ضیائ الحق کی آشیرباد باد سے افغانستان کے جہاد کی بدولت سرحد کے دونوں طرف ملا بھی طاقتور سٹیس کو کا اہم شراکت دار بن گیا اور آج تک ہے سویت یونین ٹوٹ گیا اور گرم پانیوں کے سمندر تک نہ پہنچ سکا مگر چین ہمیں قرضوں کے جال میں پھنسا کر ا±نہیں ری شیڑول بھی نہیں کر رہا ہے سری لنکا کی طرح گودار پورٹ ان کو بیچے گے تو چین قرض کی ادائیگی میں رعایت دے گا امریکہ اور عالمی مالیاتی ادارے کہتے ہیں کہ ہم آپ کو چین کا قرض اتارنے کے لیے ڈالرز نہیں دے سکتے ہیں چین کی دوستی ہمالییہ سے اونچی ہے مگر وہ ہمارے معمولی قرضے بھی ری شیڑول کرنے سے اجتناب کر رہا جب ہمارے نواز شریف اور پروفیسر احسن اقبال 40 بلین ڈالرز CPEC پراجیکٹس پر قرضے لے رہے تھے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں دیتا مہنگے بجلی کے پلانٹس 17 فیصد چا ئنز بنکوں سے تو لگ گے مگر کوہلہ گیس اور ڈیزل کی 40 ارب ڈالرز کی امپورٹ اور اوپر سے پیپلز پارٹی پارٹی کے مہنگے Ipps کے معاہدے جو طاقتور اشرافیہ کے بے نامی ملکیت ہیں بجلی کی نیشنل گرڈ کو ضرورت ہو یا نہ ہو کیپسٹی چار جز ڑالرز میں دینے ہیں کیونکہ پاور پلانٹس، موٹر وے ز اور ترکی کی کمپنیوں کو ویسٹ مینجمنٹ کے کنٹریکٹس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ آپ کے بیرونی ممالک میں آپ کے بچوں، آف شور کمپنیوں کے اکاونٹس میں جمع کرا دیتی ہیں اور آپ ان کی مہنگی بڈز قبول کر کے عوام سے ان کو وصولی کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں سیادانوں اور بیوروکریٹس سب کو حصہ بقدر جثہ مل جاتا ہے اگر مزید طاقت ور لوگوں کو اکاموڈیٹ نہ کیا جائے تو پھر ریکوڈک کا پراجیکٹ رک جاتا ہے پنجاب کی کمپنیوں کے CEOs کو اندر کر دیا جاتا ہے اہل اقتدار کرپشن کو برا کہتے ہیں اور دھیلے کی کرپشن نہیں کرتے ہیں مگر کک بیکس اور کمیشن سربراہ مملکت سے لے کر پٹواری اور چیف افسروں اور اکاو¿نٹ افسروں کا جاہز حق ہوتا ہے 9/11 کے بعد ہم پھر امریکہ کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن گئے مشرف نے اکنامی کو مستحکم رکھا بیرونی قرضے 6000 ہزار ارب تک محدود رہے گروتھ ریٹ 6سے 8 فیصد رہا ڈالر 60 روپے پر پانچ سال رہا پھر اس کو فارغ کرنے کے بعد پیپلز پارٹی اور نواز شریف نے باہر سے بے تحاشا قرض لیے سرمایہ کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے باہر منتقل کیا مشرف نے اچھا خاصا war on terror کے نام پر امریکہ کو انگیج رکھا ہوا اور ڈالز ارہے تھے افغان اشرافیہ بھی ا ن ڈالرز سے پاکستان میں جا ہیدادیں خرید رہے تھے جو باہیڑن نے فیصلہ کیا کہ افغانستان اور پاکستان اپنے پروں پہ آڑہں ہم خوش ہو گئے کہ ہم نے اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ مل کر پہلے سویت یونین اور بعد میں امریکہ کو بھی شکست دے دی مگر ہم سے ڈالر روٹھ گیا کوئی دوست اور بردار اسلامی ملک ہماری مدد نہیں کر ریا ہمارے افغانی بھائی دو ارب ڈالرز روزانہ اپنے ملک لے جا رہے ہیں اور ان کے پیٹی بھائی یہاں دھماکے کررہے تا ک نہ تو یہاں بیرونی سرمایہ کاری ہو اور تارکین وطن بھی یہاں سرمایہ کاری کے لیے زرمبادلہ نہ بھیجیں اور اب،، IMF کی تمام شرائط قبول کر کے 170 ارب کے ٹیکس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی 38 فیصد پر جا پہنچی ہے
اسٹیٹ بنک کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں قرضوں کے حجم میں 12 ہزار 143 ارب کا اضافہ ہو گیا ہے اور کل قرضے 63 ہزار 868 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں ان میں سے 130 ارب ڈالرز کے بیرونی قرضے ہیں آگر اشرافیہ باہر سے ڈالرز پاکستان میں لے آئے اور پاکستان میں کالا دھن جو ایک اندازے کے مطابق ڈالرز میں 20 ارب ہے حکومت کو ہی ایمنسٹی سکیم دے کر نکلوا لے تو بات بن سکتی ہے مگر لوگ مسلم لیگ کی حکومت پر ڈالرز کے معاملے میں اعتبار کر نے پر تیار نہیں کیوں کہ ان کی حکومت پہلے بھی لوگوں کے ڈالرز ضبط کر چکی ہے اور قرض اتارو ملک سنوارو کے پیسے کدھر گئے ہیں کچھ پتہ نہیں شہباز شریف کی گورنس اور اسحاق ڈار کی معاشی مہارت کی قلعی کھل گئی ہے نواز شریف کہتا ہے کہ عمران خان کے دور کا موازنہ میرے چار سال کے دور سے کیا جائے تو میاں صاحب اپنے دور کا موازنہ مشرف کے دور سے کیوں نہیں کر رہے اس حکومت کی کارکردگی کے زمے دار نواز شریف اور زرداری سمیت سبھی اتحادی ہیں موازانہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے 30 سالہ دور کا عمران خان کے دور سے کرلیں کہ اس ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا کر کس نے ملک میں سستی ہا ہیڈل بجلی اور صنعت سازی کی بجائے consumption oriented society میں بدلہ ہے امپورٹد چیزوں کے لیے اس قوم ترجیحات بدل کر رکھ دیں ہیں لوگ حکمرانوں کے رہن سہن کی نقل کرتے ہیں غضب خدا کا ہمارا چین سے تجارتی خسارہ 14 ارب ڈالرز ہے وزیر اعظم نے خود ہی کفایت شعار کمیٹی بنائی ہے اس نے 1000 ارب بچانے کی تجویز پیش کی ہے کہ ڈریکولا نما اشرافیہ کی مراعات کم کی جاہیں مگر حکومت ہائی کورٹ کے فیصلے کے ججوں اور بیوروکریٹس کو تین تین پلاٹس الاٹ نہ کیے جائیں کے خلاف سپریم کورٹ میں چیلنج کر رہی ہے شہباز شریف کی عجیب منطق ہے کہ کفا یت شعار کمیٹی خود stakeholders سے بات کرے اور انہیں مراعات کم کرنے پر قاہل کرے واہ جی واہ کون سا شخص اپنی مراعات اور ما لی فواہد میں سرکار سے کٹوتی پر رضا کارانہ تیار ہو گا پاکستان کے حکمرانوں کے فیصلوں کی گنگا الٹی بہتی ہے
اس شہر آشوب میں آنکھیں ہی نہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا