سوال پاکستان کی خود مختاری کا ہے ؟

Feb 21, 2024

کرن عزیز کشمیری



کشمیریات....کرن عزیز کشمیری
kiranazizkashmiri@gmail.com
 گزشتہ ماہ پاکستان نے بلوچستان میں ایرانی حملے پر احتجاج کرتے ہوئے نہ صرف اپنا سفیر واپس بلا لیا بلکہ ایران کی جانب سے اس غیر قانونی عمل کا بھرپور جواب بھی دیا ہے۔ اس سلسلے میں تمام تعلقات بھی معطل کر دیے ہیں۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے کیے گئے حملے کے جواب میں ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے اور یہ عمل بغیر کسی جانی نقصان کے کیا گیا ہے۔ اہم امر یہ ہے کہ پاکستان نے ایران کو کافی سوچ سمجھ کر جواب دیا ہے ۔ایران سے ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک سے کسی صورت کشیدگی نہیں چاہتا۔حملے کی ساری ذمہ داری ایرانی حکومت آئی آر جی سی اور ایرانی انٹیلیجنس پر عائد ہوتی ہے۔اس ضمن میں بھارت کے سوشل میڈیا اکاو¿نٹس نے بھی موجودہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھرپور مہم چلائی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی۔ چین نے دونوں ممالک سے تحمل کا مظاہرہ اور ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ پاکستان نے ایران کی جانب سے کیے گئے غیر قانونی حملے میں شہید دو بچوں کے حوالے سے بھی احتجاج کیا ہے۔ یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی ملک بغیر کسی اجازت یا کسی بھی چینل سےمشاورت کے بغیر کسی دوسرے ملک کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے مطلوبہ مقاصد کی م تکمیل کے لیے کاروائی کرے۔ پاکستان کی خود مختاری کے یہ خلاف ورزی مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ اور ہر صورت اپنی سرحدوں کی دفاع کا حق رکھتا ہے۔ 
 یہ غیر قانونی عمل پاک ایران را بطے کے متعدد چینلز ہونے کے باوجود ہوا۔ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی تہران میں موجود وزرات خارجہ سے شدید احتجاج درج کرایا جا چکا ہے ۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ ایران کی جانب سے کسی بھی غیر قانونی عمل کی تمام تر ذمہ داری ایران پر عائد ہوگی۔ پاکستان کابیانیہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خطہ دہشت گردی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بھارت خطے میں دہشت گردی چاہتا ہے۔ پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہے۔ اور اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ایران پاکستان میں کشیدگی کا ماحول بنانے میں بھارت کا کردار ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایران کی کاروائیوں یا سرگرمیوں کے پیچھےبھارت کا شاطر دماغ کام کر رہا ہو۔دہشت گردی خطے کے تمام ممالک کا مشترکہ خطرہ ہے۔ ایران کی وضاحت یہ ہے کہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایاگیا ہے تاہم بغیر تصدیق اور اجازت کے کسی بھی ملک کی سرحد کو عبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح کے اقدامات دخل اندازی یا در اندازی کے زمرے میں آتے ہیں۔واضح رہے کہ ایرانی حملے میں ایک مسجد کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔ ایران کا پاکستان پر مبینہ حملہ سوچ کے مختلف زاویوں سے گزر رہا ہے۔ بعض حلقوں کی رائے ہے کہ یہ کاروائی فرقہ ورانہ فسادات بھڑکائے کے سلسلے کا حصہ ہو سکتی ہے۔ اس ضمن میں اس امر کی صداقت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں چاہے جس ملک کی جانب سے بھی لائی جائے بھارت کے ملوث ہونےمیں کوئی شک رہ نہیں جاتا۔ بھارت بیک وقت کشمیر اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہے ، اس موقعہ پر بھارت دو اسلامی ہمسایہ مکانوں کی کثیدگی کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ یہ یا کشیدگی کی اس آگ کو بھڑکانےیا اس چنگاری کو ہوا دینے کی کوشش کرے گا۔ بلوچستان پر ایران کاحملہ افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ ایران اپنی حالت زار پر غور کرے۔ ایسے وقت میں جب ایران کو مشکلات کا سامنا ہوا ہے، پاکستان نے ایک پڑوسی ہمسائےکا بھر پور کردار ادا کیا ... یہ معاملہ حیرت انگیز ہے کہ پاکستان کی ایران کے ساتھ کسی قسم کی کشیدگی نہیں تھی پھر ایران کو بیٹھے بیٹھےکیا سوجھی۔دوسری جانب پاکستان نے ہمیشہ ایران میں دہشت کے گردی کے خلاف تعاون کیا ہے جب کہ پاکستان کے کسی بھی دشمن کے خلاف ایران نے کوئی کردار ادا کیا۔ گلبھوشن ایران کی دستاویزات پر پاکستان میں داخل ہوا۔ ایران نے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کاروائیوں میں استعمال ہونے دی۔ حملے سے قبل سیاسی، سفارتی اور عسکری سطح پر رابطے موجود تھے۔ جب کہ اس حملے سے 24 گھنٹے پہلے پاک ایران بحری مشقیں بھی ہوئیں تھیں۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ جس طرح بھارت اور امریکہ کے خریدے ہوئےدہشت گرد اپنی کاروائیاں، وارداتیں کر رہے ہیں۔ اسی طرح یہی دہشت گرد ایران اور افغانستان کی سر زمین استعمال کرتے ہیں۔ لہذا وقت کا تقاضہ ہے کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے مشترکہ کا روائی کی جائے۔ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے لیے ا±ن کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں تاکہ خطے کا امن بحال ہو۔ یہ وقت کشیدہ صورتحال کو مزید ہوا دہنےکا نہیں۔ پڑوسی ملک بھارت، پاک ایران کشیدگی پر نظریں گاڑھے بیٹھا ہے ۔تاکہ مزید صورتحال کا بھر پور طریقے سے استعمال کیا جا سکے، اور اپنے اہداف حاصل کئے جا سکیں ۔اس ضمن میں عوام کی جان و مال بھی اہم ہے ۔بادی النظر میں ایران نے غلط فہمی میں ایک بہت بڑی غلطی کی ۔

مزیدخبریں