فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
پی ایس ایل کے زیر اہتمام کرکٹ کے میچز شروع ہو چکے ہیں۔افتتاحی میچ اسلام آباد اور لاہور قلندر کے درمیان ہوا۔شہر لاہور کی کرکٹ ٹیم کا نام” لاہور قلندر “رکھنا انتہائی غیر مناسب اور مبنی بر جہالت ہے۔گمان رکھنا چاہیے کہ کسی نے لاعلمی میں یہ نام رکھا۔مناسب یہی ہے کہ اس نام کو بدل دیا جائے۔وجہ یہ ہے کہ مقام قلندرجہان تصوف میں ایک اہم مقام ہے۔
تصوف کی اصطلاح میںقلندر وہ ہستی ہے جو روحانی ترقی یہاں تک کر گیا ہو کہ اپنے وجود اور علائق دنیا سے بے خبراور لا تعلق ہو کر ہمہ تن اللہ رب العزت کی ذات کی طرف متوجہ رہتا ہو ۔ اللہ کے یہ بندے غرض ،طمع ،حرص و لالچ سے بے نیاز ہوتے ہیں۔بقول واقف و رازدان امورتصوف حضرت ڈاکٹر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ
نہ تخت و تاج نے لشکر و سپاہ میںہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
مہر و ماہ انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کامرکب نہیں،راکب ہے قلندر
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندرکی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے ،نہ من تیرا نہ تن
محترم قتیل شفائی صاحب نے بھی قلندر کا مقام یوںبیان کیا
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تار ا تو زمیں پر نہیں گرتا
اللہ پاک لاہور کی کرکٹ ٹیم کے منتظمین کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ویسے بھی شہروں کے نام پر کرکٹ ٹیمیں بنانا دانشمندی نہیں۔قوم کی سوچ ابھی نابالغ ہے ۔پہلے ہی قوم سیاست، مس¾الک ،برادریوں اورذات پات کی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم ہے۔صوبائی عصبیت بھی قومی یک جہتی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ایسے میں شہروں کے نام پر ٹیمیں بنانا قومی وحدت کومزید کمزور کرے گی۔راقم سطور کو کرکٹ سے کوئی دلچسپی نہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ شہر لاہور کے لاکھوں افراد کی طر ح راقم کا شمار شائقین کرکٹ کی بجائے متاثرین کرکٹ میں ہوتا ہے۔معلوم نہیں دوسرے بڑے شہروں میں جہاں کرکٹ کے میچز ہوتے ہیں، کے باسیوں کی کیا حالت ہوتی ہے ۔لاہور کے مکین تو کرکٹ کی وجہ سے بد ترین ذہنی،نفسیاتی اور جسمانی اذیت کا شکار ہیں۔جب بھی لاہور میں کرکٹ کا دور چلتا ہے کھلاڑیوں کو شاہراہ قائداعظم کے پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرایا جاتا ہے۔کھلاڑیوں کو ہوٹل سے سٹیڈیم اور پھر واپس ہوٹل لانے کے مراحل کے دوران ٹریفک کی جو بد نظمی دیکھنے کو ملتی ہے وہ بے مثال ہے۔کیا ایسا ممکن نہیں کہ کھلاڑیوں کے لیے سٹیڈیم کے نزدیک بہترین اور محفوظ رہائش کا انتظام کر دیا جائے۔یکے از واقفان امور راز ریاست نے بتایا کہ ایسا بالکل ممکن ہے لیکن منتظمین ”دیگر وجوہات“ کی بنیاد پر ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ رہ گئی عوام تو عوام کی خجل خواری کی کس کو پرواہ۔عوام کے لیے یہ ذلت اور رسوائی تو دائمی سی ہی ہو تی جا رہی ہے۔سننے میں آرہا ہے کہ یہ ”بابرکت “ کھیل ماہ مبارک رمضان کریم میں بھی جاری رہے گا۔کوئی بتائے کہ وہ کونسی آفت آن پڑی ہے کہ یہ نوبت آگئی ۔عبادت کا مہینہ ہے نوجوانوں کوکس کام پہ لگا رہے ہو۔کچھ تو خدا خوفی کرو۔ماہ مبارک کے تقدس کا ہی کچھ خیال کرلو ۔ جان بوجھ کر عذاب الہٰی کو کیوں دعوت دے رہے ہو۔ امسال پی ایس ایل کے ترانے کا ایک مصرعہ ہے ”کھل کے کھیل“۔شکریہ پی ایس ایل اس یاد دہانی کا۔ الا ماشاءاللہ پوری قوم ہی کھل کے کھیل رہی ہے۔کرکٹ بورڈ کے منتظمین کیا کھل کے نہیں کھیل رہے۔ایسی ”شاندار“ کرکٹ ٹیم جس نے نے گزشتہ ورلڈ کپ میں دنیابھر میں میں نام ”روشن “ کیا ایسے تو نہیں بن گئی۔اوپر سے لے کر نیچے تک سب کھل کے کھیلے تو بنی ۔ویسے غیرت کا تقاضہ تو یہ تھا کہ پاکستان اس ”عظیم کامیابی“ پر اس کھیل سے دستبرداری کا اعلان کر دیتا کہ یہ ہمارے بس کی بات نہیں۔پون صدی سے سیاست دان کھل کے کھیل رہے ہیں ،انتظامیہ کھل کے کھیل رہی ہے اور ملک عزیزترقی کی ”منازل“ طے کرتا جا رہا ہے۔کیا تمام محکمے کھل کے نہیں کھیل رہے ۔تاجر،صنعت کار ، سرکاری ملازمین اور قانون نافذکرنے والے ادارے بھی اس کھیل کا حصہ ہیں۔کھل کے کھیلنے میں عوام بھی کسی سے کم نہیں۔جس کو بھی جہاں موقع ملتا ہے ضرور کھل کے کھیلتا ہے۔اللہ کرے کھل کے کھیلنے کا یہ سلسلہ رک جائے کہیں ایسے نہ ہو کہ
موہے آئی نہ جگ سے لاج
اتنا کھل کے ”کھیلی“ آج
کہ گھنگرو ٹوٹ گئے
کھل کے کھیل
Feb 21, 2024