کیا الیکشن کمیشن واقعی آزاد ہے ؟


سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

ہماری یہی دعا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابات کے حوالے سے ویسا ہی کردار ادا کرسکے جیسا ہندوستانی الیکشن کمیشن انتخابات ادا کرتا ہے۔ لگتا ایسا ہی ہے کہ ہماری آرزوخواہش ہی رہے گی۔پاکستان میں الیکشن کمیشن کے سربراہ روایتی طور پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق جج رہے ہیں لیکن اس مرتبہ چیف الیکشن کمیشن کی سربراہی کے لیے سول سرونٹ کا انتخاب کیا گیا اور کہا یہی جاتا ہے کہ ان کو منتخب کرنے میں وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر سے زیادہ کسی اور کا کردار زیادہ تھا ،لیکن ہمارے ملک میں یہ روایت رہی ہے اور اہم عہدوں کا انتخاب غیر جمہوری قوتوں کے کہنے پر ہو تا رہا ہے اور نگران وزیر اعظم سمیت دیگر کا انتخاب بھی ایسا ہی ہو ا ہے جو کہ یقینا جمہوریت کے لیے خوش آئند بات نہیں ہے لیکن بہر حال حقیقت یہی رہی ہے اور اس کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔میری ہمیشہ سے یہی خواہش رہی کہ سول سروس سے تعلق رکھنے والی شخصیت الیکشن کمیشن کا چارج سنبھالے اور قوم کو بہترین اور معنی خیز الیکشن دے ،ایک ایسا الیکشن جو کہ اس ملک کی جمہوریت اور سیاست کو ایک نئے دور میں داخل کرے اور عوام کو الیکشن اور جمہوریت کے معنی خیز نتائج مل سکیں لیکن بد قسمتی سے الیکشن کمیشن نے وہی کام کیے جو کہ نہیں کرنے چاہیے تھے مثال کے طور پر سیاسی جماعتو ں کو انتخابی نشان ریٹنگ افسران کو ہی جاری کرنا چاہیے۔جب بھی کو ئی امید وار الیکشن کے لیے اپلائی کرے اور جس دن کاغذات کی سکرو ٹنی ہو اسی دن آر او کے پاس الیکشن کمیشن کے منظور شدہ انتخابی نشانات کی فہرست ہو نی چاہیے اور اس فہرست میں سے ہی امید وار کو انتخابی نشان الاٹ کر دینا چاہیے لیکن اس دفعہ عجیب تماشہ لگا کہ الیکشن کمیشن نے آزاد امید واروں کو جو کہ آزاد امید وار نہیں تھے ان کو اپنی طرف سے نشانات الاٹ کر دیے جو کہ ایک مضحکہ خیز صورتحال تھی اور الیکشن کمیشن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ،اور سیاسی جماعت کو سیاسی جماعت رہنے دینا چاہیے تھا۔الیکشن کمیشن اس مرتبہ نتائج میں تاخیر کے معاملے میں بھی ناکام ہوا ہے کیونکہ اس مرتبہ الیکشن کے نتائج میں بھی غیر معمولی تاخیر دیکھی گئی ہے اور ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ الیکشن کی رات ہی 12بجے تک نتائج سامنے آجائیں لیکن ایسا ہو ا نہیں کیونکہ ابھی تک بھی چند حلقوں کو چھوڑ کر نتائج ابھی تک مکمل نہیں ہو ئے ہیں ،جو جہ یقینا بہت تشویش کی بات ہے اور الیکشن کمیشن کی بڑی ناکامی ہے۔الیکشن کمیشن کی کا رکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اور الیکشن کمیشن نے ہر طریقے سے یہ کوشش کی کہ الیکشن وقت پر نہ ہوں اس حوالے سے بھی الیکشن کمیشن کا کردار مایوس کن رہا ہے اور باریکی سے چیزوں کو دیکھا جائے تو یہی معلوم ہو تا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر مملکت کی جانب ے تاریخ دیے جانے کے بعد بھی الیکشن نہیں کروایا اور سپریم کورٹ کو اس حوالے سے مداخلت کرنا پڑی اور پھر کہیں جا کر 8فروری کو الیکشن کی تاریخ مقرر ہو ئی۔ اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اداروں کو آزادی سے کام کرنے دیا جائے اور ان میں اصلاحات کی جائیں ،یہی طریقہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی کا ر کردگی میں بہتری لا ئی جاسکتی ہے اور دیگر اداروں کو بھی مضبوط کیا جاسکتا ہے۔ہمیں اس طرف سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور تیزی سے بڑھنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا ہے اب ہمیں ہر حالت میں ملک کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔الیکشن کمیشن کی سربراہی جج کو ہی دی جانی چاہیے اور یہ دستور کے مطابق بھی ہے ،بہر حال اب الیکشن ہو چکے ہیں دوبارہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور الیکشن کے نتائج اور انعقاد پر ہر طرح کی انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اب تو معاملہ 35پنکچر سے بڑھ کر 80پنکچر ہو گیا ہے لیکن اب بھی الیکشن کے نتائج کو تسلیم کیا جانا چا ہیے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے اور اب ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔میں یہ ضرور کہوں گا کہ الیکشن میں خواتین اور نوجوانوں کا اہم کردار رہا ہے اور بڑی تعداد میں خواتین اور نوجوانوں نے الیکشن میں حصہ لیا ہے اور الیکشن کے نتائج میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ،اور میں یہ برملا کہوں گا کہ نوجوانوں اور خواتین کو بیلٹ باکس سے جوڑنے کا کام عمران خان نے کیا ہے اور بخوبی کیا ہے اور اس پر ان کو کریڈیٹ دیا جانا چاہیے۔اس ملک کی بد قسمتی رہی ہے کہ ہم ہمیشہ سے ہی عوام کی مرضی ماننے سے گریز کرتے رہے ہیں اور جس کے ماضی میں ہمیں نقصانا ت بھی ہو ئے ہیں اور اب ہمیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے۔مجھے اب لگ رہا ہے کہ عوام اب جاگ گئے ہیں اور سیاسی طور پر میچور ہو گئے ہیں اور مستقبل میں اس امر کے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور یقینا اس تمام پیشرفت کا کریڈیٹ عمران خان کو ہی جاتا ہے۔اس کامیابی کا سہرا ان کے سر ہے۔

ای پیپر دی نیشن