انتخابی نتائج اور عوام کا اضطراب


سچائی میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور جھوٹ کے کوئی پاو¿ں نہیں ہوتے۔ حقیقت کا اپنا ایک حسن اور دلکشی ہوتی ہے جبکہ فرضی چیزوں پر جتنی مرضی ملمع کاری کر لیں، سنہری تاروں میں لپیٹ لیں۔ وہ کھوکھلی ہی رہتی ہیں۔ آپ اس کا اندازہ نگران حکومتوں سے لگا لیں۔ ماشاءاللہ ہمارے نگرانوں کے پاس منتخب نمائندوں سے زیادہ اختیارات تھے ویسے بھی انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں تھا۔ انھوں نے دل کھول کر عوامی منصوبوں پر خرچ بھی کیے لیکن وہ عوامی نظروں میں جچتے نہیں تھے کیونکہ انھیں عوام کی تائید حاصل نہ تھی۔ اسی طرح آپ نے پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت بھی دیکھی۔ تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی تھیں۔ اداروں نے آوٹ آف دی وے ان کی مدد بھی کی۔ ان کی پروموشن کے لیے حد سے زیادہ ہوا بھی بھری لیکن پھر بھی بات نہ بن سکی۔ وہ 16 ماہ تک اوپرے اوپرے سے ہی لگتے رہے پھر ہم نے دیکھا کہ کسی کو عوام کی نظروں میں گرانے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ اور جن کو پروموٹ کرنے کے لیے زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے رہے، وہ ہر کوشش پر زور پکڑنے کی بجائے زمین بوس ہوتے چلے گئے۔ اربوں روپے خرچ کرنے اور دنیا جہان کے جتن کرنے کے باوجود خواہش پوری نہ ہو سکی تو پھر تسلیم کر لینا چاہیے کہ قدرت کچھ اور چاہ رہی ہے۔
 کہتے ہیں آواز خلق نقارہ خدا۔ عوام کی آواز کو محسوس کریں اسے دبائیں نہیں۔ انتخابات ہو چکے دھاندلی کا شور ساتویں آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ اس پر بھی بات کرلیتے ہیں مگر پہلے حکومت سازی کے لیے جو ڈول ڈالا گیا ہے اس کی طرف آتے ہیں۔ بظاہر کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کو سٹیرنگ تھما دیا جائے۔ 
پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم ودیگر چھوٹی جماعتوں سمیت کچھ آزاد جو کہ دراصل تحریک انصاف کا حصہ ہیں اور اس کے نام پر ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ہیں، ان کی وفاداریاں خرید کر انھیں حکومت کا حصہ بنایا جائے تاکہ عددی تعداد بھی پوری کی جاسکے اور حکومت کو استحکام بھی بخشا جا سکے۔ 
ویسے دیکھا جائے تو پاکستان میں دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کوبھی ہم نے تنکوں کی طرح بہتے دیکھا ہے اور ایک ووٹ کی اکثریت سے بننے والی حکومت کو بھی چلتے دیکھا ہے۔ اصل معاملہ چلانے والوں کی نیت کا ہے لیکن موجودہ انتخابات کے نتیجے میں کسی جماعت کے پاس اتنا مینڈیٹ نہیں کہ وہ حکومت بنانے کا حق رکھتی ہو۔ 
یہ بات زبان زد عام ہے کہ اعداد وشمار مینج کیے گئے ہیں اس قسم کی حکومت کے فائدے کم اور نقصان زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر پارٹنر زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے اور منعفت بخش عہدے حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ وصولیاں کرنا چاہتا ہے۔ ابھی بھی اتحادیوں میں جو بارگینگ ہو رہی ہے وہ کمائی والی سیٹوں کی بندر بانٹ پر ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ حکومت میں شامل زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کا آخری موقع ہے۔ 
آخری موقع سمجھنے والے کہیں، انھّی نہ پا دین۔ اوپر سے جس پی ڈی ایم ٹو کی حکومت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے پچھلے 16 ماہ جو عوام نے بھگتے ہیں اس کو عوام ایک ڈراونا خواب سمجھتے ہیں اور وہ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر اسی مہنگائی اور لوٹ مار اور عوام دشمن پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھنا تھا تو الیکشن کروانے کا کیا فائدہ تھا اسی سیٹ اپ کو طول دے دیتے۔
 جہاں تک آئینی قدغن کا سوال تھا تو آئین تو پہلے بھی کئی بار ٹوٹ چکا ہے۔ عوام تو یہ بھی کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم سے تو بہتر نگران تھے پھر نگرانوں کو ہی رہنے دیتے۔ انتخابات پر 60،70 ارب روپے خرچ کرکے پی ڈی ایم پارٹ ٹو لانچ کرنے کا فائدہ؟۔ اب ذرا انتخابات کی طرف آتے ہیں۔
 اگر ان انتخابات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو پہلی بار عوام نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ہے اور واضح طور پر تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ اب عوام کے فیصلے کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے مینجمنٹ سے تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ادھر ادھر کی سواریاں پکڑ کر بس بھرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر آپ زبردستی بس بھر بھی لیں گے تو یہ بس چلتی ہوئی نظر نہیں آتی اور یہ بس بغیر ٹائروں کے ایک ہی جگہ کھڑی رہے گی۔ یہ عوام کے فیصلوں کے برعکس ہو گی۔ اوپر سے حکومت سازی سے قبل ہی بجلی، گیس،پٹرول کی قیمتوں میں خوفناک اضافہ نے عوام کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کے نئے قرض کی جو بات چل رہی ہے اس کے نتیجے میں مزید ٹیکسز اور شکنجے کے تصور سے ہی عوام کانپ اٹھتے ہیں۔ عوامی خواہشات کے برعکس حکومت سازی، مہنگائی، عدم استحکام کا تسلسل۔ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر کار ان کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن