سیاست باہمی احترام کے ساتھ اختلاف رائے کا نام ہے، مگر یہاں سیاست اندھی نفرت کا کھیل بن گئی ہے۔ صرف سیاست ہی نہیں، معاشرے کے قریباً تمام شعبوں میں تقسیم اور نفرت کا عمل کئی برسوں سے جاری ہے جو، اب ایک ناسور کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ کسی طرف برداشت کا کلچر نہیں رہا۔ جس کے باعث صورت حال روز بروز بگڑتی دکھائی دیتی ہے۔ اگرچہ سیاست لائق تقدیس ہونی چاہیے مگر یہ لائقِ تحقیر بن گئی ہے۔ پوری قوم منزلوں کی جستجو میں ہے۔ اور گمشدہ راستوں کو ڈھوند رہی ہے تاکہ منزلوں تک پہنچ سکے مگر موجودہ سیاسی کلچر نے ہمیں منزل کے تمام راستوں سے دور کر دیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہی ہے کہ وسائل سے مالا مال ہمارا ملک بھٹکا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نا کوئی منزل، نا کوئی راستہ۔ اس کا ذمہ دار سیاست دانوں کو نہ کہیں تو کس کو کہیں۔ جن میں بردباری، سنجیدگی اور برداشت کا فقدان ہے۔ بردباری اور سنجیدگی نہ ہوئی تو اس عدم برداشت کے صلے میں ہم آج اس نہج پر پہنچے ہوئے ہیں۔ خیال تھا کہ 2024ءکے الیکشن ہوں گے تو سیاست کے کچھ تیور بدلیں گے۔ ٹھہراﺅ آتا محسوس ہو گا مگر اس کے نتائج نے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں۔ کوئی ایک جماعت بھی سادہ اکثریت نہیں لے سکی۔ وفاق میں حکومت قائم کرنے کے لیے دو بڑی اور کچھ چھوٹی جماعتوں کا اتحاد تشکیل پایا ہے۔ مرکزی جماعتیں ن لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ہیں۔ جبکہ ایم کیو ایم، آئی پی پی بھی اس تشکیل پانے والے اتحاد کا حصّہ ہیں، آپ اس اتحاد کو پی ڈی ایم پارٹ ٹو بھی کہہ سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں پچھلے ہفتے تشکیل پانے والے اس اتحاد نے میاں محمد شہباز شریف کو نیا وزیراعظم نامزد کیا ہے، جن کا نام ن لیگ کے قائد میا ں محمد نواز شریف نے تجویز کیا۔ خیال ہے اس ماہ کے آخر تک نیشنل اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جائے گا۔ نئے منتخب ارکان اسمبلی کی حلف برداری کے بعد اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کا چناﺅ ہو گا، جیسے ہی یہ مرحلہ تکمیل پائے گا، نیشنل اسمبلی وزیراعظم کے عہدہ کے لیے نامزد وزیراعظم کا انتخاب کرے گی جس کے لیے ووٹنگ کا جمہوری طریقہ¿ کار اختیار کیا جائے گا۔امیدوار کے حق میں زیادہ ووٹ پڑیں گے تو وہ وزیر اعظم کے عہدہ کے لیے چن لیا جائے گا۔ خیال ہے مارچ کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم اور دیگر حکومتی عہدوں کی تکمیل کا یہ گورکھ دھندہ اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔
سیاست پر بہت کچھ لکھا ہے، لکھا جاتا رہے گا۔ مگر آج ہمارا موضوع وہ سیاست دان ہیں جنہیں بلاشبہ ہم زیرک اور سنجیدہ سیاست دان کہہ سکتے ہیں۔ ان میں کئی نام آتے ہیں، بہت سے ماضی کا قصہ بن گئے، کئی اب بھی حیات اور موجود ہیں۔ جن کا دامن بہت سی سیاسی آلائشوں کے باوجود ہر طرح کے داغوں سے پاک ہے۔ نوابزادہ نصراللہ خاں یاد آتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اب اُن جیسے لوگ کہاں۔ نوابزادہ نصراللہ خاں کا شمار بزرگ اور سنجیدہ سیاست دانوں میں ہوتا تھا۔ آپ مجلسِ احرار کے سیکرٹری جنرل رہے۔ بعدازاں پاکستان جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی۔اس کے سربراہ کے طور پر سیاسی خدمات سرانجام دیں۔ نوابزادہ صاحب کا پورا سیاسی کیرئیر ہر طرح کی آلائشوں سے پاک اور بے دا غ رہا۔ اُن کا مخالف بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ نوابزادہ صاحب نے اپنے سیاسی قد کاٹھ کا کوئی فائدہ اٹھایا ہو اور حکومت وقت سے کسی قسم کی مراعات لی ہوں۔
معراج خالد کا شمار بھی ایسے وضع دار، شریف، نیک اور سنجیدہ سیاستدانوں میں ہوتا ہے، اُن کا تعلق لاہور کی ایک مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ دودھ فروشی اُن کا کاروبار تھا۔ پڑھ لکھ گئے تو سیاست میں آنے کا سوچا اور ایک دودھ فروش سے وزیراعظم کے اعلیٰ منصب تک پہنچے۔ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت پاکستا ن پیپلز پارٹی سے کیا۔ لڑکپن میں والد کے ساتھ دودھ بیچنے کا کام کیا۔ علی الصبح سائیکل پر دودھ لاد کر شہر کا رخ کرتے۔ گاﺅں واپس آتے تو کپڑے بدل کر اسکول کی راہ لیتے۔ محنت کرنے والے اور مستقل مزاج بھی بہت تھے۔ قانون پڑھنے کی دھن سمائی تو قانون کی ڈگری حاصل کی۔ یو ں لاءگریجویٹ بن گئے۔ سیاست میں قدم رکھا اوربھٹو کے سیاسی قافلے میں شامل ہو گئے۔ انہیں دنیا سے رخصت ہوئے دہائیاں بیت گئیں لیکن کوئی بھی ایسا نہیں جو اُن کے کردار پر انگلی اٹھا سکے، کہہ سکے کہ معراج خالد نے مالی فائدے اٹھائے، سیاست کا غلط استعمال کیا۔
غلام حیدر وائیں سیاست کا ایسا کردار ہیں جو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاسی افق پر چمکے۔ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے لیکن وزیراعلیٰ بننے کے باوجود درویش منش رہے۔ ان کا تعلق پنجاب کے سب سے پسماندہ ضلع میاں چنوں کے ایک مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔
1988ءمیں ممبر قومی اسمبلی بن کر قائد حزب اختلاف بنے۔ بعدازاں 1990ءکے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ جس میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد میاں محمد نواز شریف نے انہیں پنجاب کا وزیراعلیٰ بنا دیا۔ ا ن کے بارے میں آج تک کوئی اسکینڈل، کوئی الزام سامنے نہیں آیا، نہ آ سکا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری سیاسی زندگی سادگی اور وضع داری سے گزاری۔ ایک بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بھی کوئی مالی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ نا اپنے خاندان کے کسی فرد کو اپنے عہدے سے کوئی فائدہ پہنچایا۔ اُن کے نام کوئی جائیداد، کوئی بینک بیلنس نہیں تھا۔ سیاسی زندگی بھی ہر آلائش سے پاک تھی۔
یہ ایسے لوگ ہیں جو ہماری سیاست میں واقعی ہیرو کہلائے جانے کے صحیح حقدار ہیں۔ اب ذکر کرتے ہیں موجودہ صورت حال میں ایسی شخصیات کا، جن پر کرپشن اور مالی ضابطگیوں کے الزامات ہیں۔ یہ تعداد انگلیوں پر نہیں گنی جا سکتی کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ ان کے قصے آپ اخبارات میں کثرت سے پڑھ چکے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا بھی تسلسل سے ان قصوں کو نشر کر چکا ہے۔ اس پر مزید کیا بات کریں۔ بات کرنا چاہیں تو اُ ن سیاستدانوں پر، جو، اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ اُن کا طویل سیاسی کیرئیر ہے، اس کے باوجود اُن میں سے کسی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا ، سیاست کو عبادت سمجھ کر کیا۔ خدمت کے جذبے کو شعار بنائے رکھا۔
اِن سطور میں خصوصی طور پر حامد ناصر چٹھہ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو صوبائی اور وفاقی وزیر رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے پڑھے ہوئے ہیں۔ گوجرانوالہ اُن کا ضلع اور وزیرآباد اُن کی آبائی تحصیل ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں۔ پرانے پارلیمنٹرین ہیں۔ اُن کا شمار قد آور سیاست دانوں میں ہوتا ہے۔ اُن کے بارے میں اُن کا کوئی مخالف بھی آج تک کسی کرپشن یا مالی بے ضابطگی کا کوئی الزام نہیں عائد کر سکا۔ وہ ایک وضع دار سیاست دان ہیں۔ انہوں نے سیاست میں نیک نامی ہی کمائی ہے۔
سیاست میں رہ کر نیک نامی کمانا بڑے اعزاز کی بات ہے۔ جو کم لوگوں کے نصیب میں رہی ہے۔ آئے روز سیاستدانوں کے حوالے سے جو اسکینڈل سنتے ہیں ، مالی کرپشن کے حوالے سے جو الزامات ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ہر ذی شعور کو دلگیر کر دیتے ہیں۔ آج کا کوئی بھی سیاستدان اور حکومتی عہدے پر رہنے والا شاید ہی کسی الزام سے بچا ہو۔
سیاست کو عبادت کہا گیا ہے، لیکن کتنے لوگ ہیں جو اسے عبادت سمجھتے ہیں اور عبادت سمجھ کر سیاست کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست میں آج جو پراگندگی ہے اُس نے سیاستدانوں پر سب کا اعتبار ختم کر دیا ہے۔ حالیہ الیکشن میں جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ سیاستدانوں پر دھاندلی کے سنگین الزامات لگ رہے ہیں۔ ن لیگ کے علاوہ دھاندلی کا شور مچائے سب ہی جماعتیں اس وقت سڑکوں اور چوراہوں پر ہیں، ہونے والی دھاندلی کے خلاف شدید احتجاج کر رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کو صوبہ خیبر پختونخوا میں اکثریت حاصل ہے اس کے باوجود احتجاج پر ہے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے علاوہ وفاقی حکومت میں بھی شامل ہو رہی ہے پھر بھی کہتی ہے ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے۔ جے یو آئی (ف) اور بلوچستان کی بہت سی علاقائی جماعتیں بھی دھاندلی کے الزام کے ساتھ سڑکوں پر نکلی ہوئی ہیں۔ سوچتا ہوں ہماری سیاست کا قبلہ کب درست ہو گا؟