الیکشن کی فالٹ لائنیں....!


پاکستان کے محب وطن اور حساس طبقات عرصہ دراز سے ان فالٹ لائنوں کے جھٹکے محسو س کررہے تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ یہ الیکشن 1970ئ کی طرح پاکستان کو زیر وزبر نہ کرکے رکھ دیں۔ کوئی ڈر رہا تھا کہ یہ الیکشن 9مئی کے حق میں اور فوج کے خلاف ریفرنڈم ثابت نہ ہوں۔ میں نے الیکشن سے پہلے ایک خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر یہ کالم لکھا تھا کہ امریکہ میں اوور سیز پاکستانی دنیا بھر سے چندہ اکٹھا کررہے ہیں تاکہ وہ اس الیکشن کو سبوتاڑ کرسکیں ،اور اس کے نتائج کو متنازع بنادیں۔ اور پی ٹی آئی یہ دعویٰ کرسکے کہ آزاد امیدوار اسی کے کھاتے میں ہیں۔ میری یہ رپورٹ حرف بحرف سچ ثابت ہورہی ہے۔ آزاد امیدواروں نے شیخ مجیب الرحمن سے بھی زیادہ شوروغوغا مچارکھا ہے کہ پاکستان کا اقتدار ان کے حوالے کیا جائے اور 1970ءکی طرح عوامی مینڈیٹ کو بوٹوں تلے نہ کچلا جائے۔ حیرت ہے کہ پاکستان کی دو بڑی پارٹیاں جو پچاس سال سے اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں، وہ اپنے اپنے صوبوں میں سکڑ کر رہ گئی ہیں۔ کجا دو تہائی اکثریت کے ساتھ چوتھی بار وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا جارہا تھا ، مگر اب حال یہ ہے کہ اتنا سہانا خواب دیکھنے والے وزیراعظم کی دوڑ سے ہی رضاکارانہ باہر ہوگئے ہیں ، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ٹوٹے پھوٹے مینڈیٹ کے ساتھ نہ حکومت زیادہ دیر چل سکتی ہے ، نہ کوئی بڑا انیشی ایٹولیا جاسکتا ہے۔ 
پیپلزپارٹی کے بانی مسٹر بھٹو مطلق العنان حکمران تھے ، انہوں نے بڑی آسانی سے آرمی چیف اور ائرچیف کو نوکری سے برخاست کردیا۔ مخالفین نے تو ان کا نشانہ بننا ہی تھا ، لیکن انہوں نے اپنے حامیوں کو بھی نہ چھوڑا۔ انہیں دلائی کیمپوں میں بند کردیا۔ انہیں معراج محمد خان کے انجام تک پہنچایا۔ ان کے بعد دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، ایک مرتبہ آصف زرداری صدر بنے۔ وفاق میں وہ چار مرتبہ اقتدار کا جھولا جھول چکے ہیں ، مگر صوبے میں تو قائم علی شاہ، قائم علی شاہ، قائم علی شاہ، ہر بار وزیر اعلیٰ بنے، وہ تھک گئے، تو اب سندھ میں کئی ٹرموں سے مراد علی شاہ، مراد علی شاہ ہورہی ہے ، صوبہ سندھ میں اتنی طویل حکومت کے باوجود صوبے کے عوام کی حالت ابتر اور انتہائی خستہ ہے ، اس کارگزاری کے ساتھ وہ بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنوانا چاہتے ہیں۔ کیا ہی بہتر ہوتا ، ایک سال تک وہ وفاقی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں، مگر موصوف کو لاڑکانہ یونین کونسل چلانے کا تجربہ بھی نہیں ہے ، مگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ ایٹمی پاکستان کا بٹن ان کے ہاتھ میں آجائے۔ 
مسلم لیگ ن کا حساب کتاب بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں۔ وہ گھر کے اقتدار پر یقین رکھتی ہے۔کبھی نوازشریف، کبھی شہباز شریف، کبھی حمزہ شہباز اور اب مریم نواز ، نہ جانے یہ دونوں بڑی پارٹیاں اقتدار کی حرص میں کیوں مبتلا ہیں۔ انہی دونوں پارٹیو ں کی حکومتوں کے دوران مہنگائی کا جھکڑ چلا ، روٹی دال کا بھاﺅ مت پوچھیں۔بجلی کا ایک یونٹ 10روپے سے 80روپے تک جاپہنچا، گیس کا بل 200سے 50000روپے کو چھورہا ہے۔ مہنگائی کی حد تک ان دونوں پارٹیوں نے پاکستان کو پیرس بنادیا ہے ، ان حکومتوں کی ”برکت “سے لوگ چند لقمے روٹی کے لئے بھی ترس رہے ہیں۔غریب کا بچہ سکول ،کالج ، یونیورسٹی کا منہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔ کہ ایک سمیسٹر کی فیس دو سے سات لاکھ روپے تک ہے۔ کہاں روٹی ، کپڑا ، مکان کے نعرے اور ڈیڑھ کروڑ نوکریوںاورپچاس لاکھ گھروں کا چکمہ، غربت ختم کرنے کے دعویداروں نے غریب کو ہی کچل ڈالا۔ 
مولانا فضل الرحمن آج سب سے زیادہ دھاندلی کا شور مچارہے ہیں۔ جبکہ ان کی کارکردگی یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے ، ساری دنیا کے سیرسپاٹے کئے ، مگر کشمیر کے حق میں ان کے منہ سے ایک لفظ تک نہ نکلا۔ اب رہ گئی پی ٹی آئی ، جس کی نالائقی کا تماشا ساری دنیا نے دیکھا ، مگر آج وہ جیل کی سلاخیں توڑ کر تختِ اسلام آباد پر متمکن ہوجائیں اور پاک فوج اور ملکی آزادی و سلامتی کو داﺅ پر لگانے کے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کرسکیں۔ اتنا نقصان تو شیخ مجیب الرحمن نے بھی شاید پاکستان کو نہیں پہنچایا ہوگا۔ جتنا 9مئی کی ایک رات کو پی ٹی آئی کے یوتھیوں نے پہنچادیا۔ 
اس وطن ِ عزیز میں ہر الیکشن کے منہ پر دھاندلی کی کالک ملی گئی ، کسی الیکشن کے نتیجے کو کسی نے بھی خوش دلی سے قبول نہ کیا، ہارنے والوں نے بھی اور جیتنے والوں نے بھی۔ اگر ایک آئی جی قربان علی کو دھاندلی کا حق حاصل تھا اور آر ٹی ایس بند کرکے عمران خان کو سونے کی طشتری میں رکھ کر اقتدار پیش کیا جاسکتا تھا تو آج دھاندلی کی ضرورت سب سے زیادہ تھی۔ یہ دھاندلی پاکستان کے حق میں ہوتی ، قومی سلامتی اور ملکی آزادی کو یقینی بنانے کیلئے ہوتی ، ملک کی داخلی و خارجی سرحدوں کے دفاع کے لئے ہوتی ، اے کاش! دھاندلی کرکے کسی ایک پارٹی کو دوتہائی اکثریت دلوادی جاتی۔ میری خواہش ہے کہ جس طرح جماعت اسلامی نے اپنے امیر سراج الحق کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کردیا ہے ، اسی طرح مسلم لیگ ن بھی اپنے قائد کے اس فیصلے کو مسترد کردے کہ وہ وزیراعظم کی دوڑ سے باہر ہیں۔ 
مسلم لیگ ن کو جو ووٹ پڑا ہے، وہ میاں نوازشریف کی دین ہے ، رہی یہ بات کہ حالیہ الیکشن 9مئی کے حق میں ریفرنڈم تھا، تو یاد رکھئے کہ پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو جتنےءووٹ پڑے اس کے مقابلے میں ملکی آزادی و سلامتی کے حق میں باقی جماعتوں کو تین گنا زیادہ ووٹ پڑے۔ اب خود ہی یہ اندازہ لگالیجئے کہ اس ریفرنڈم میں کون جیتا ، کون ہارا۔ پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے۔ وطن عزیز کی مسلح افواج ہر دشمن کو ناکوں چنے چبواسکتی ہیں۔اس لئے خواب آور گولیاں کھاکر مستی میں آنے کی کوشش نہ کریں۔ 
٭٭٭

ای پیپر دی نیشن