میٹرک کے امتحانات اردو کی بجائے انگریزی میں ہوں گے!

عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ پنجاب کے وہ طلباء جو پرائیوٹ سکولز سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کی نسبت سرکاری سکول جانے والے بچوں کی انگریزی میں مہارت قابل ستائش  نہیںہے۔ اردو میں امتحانات کی بناء پر سرکاری سکول کی کار کردگی قابل برداشت تھی البتہ آئندہ تعلیمی سال کے تحت ہونے والے امتحانات کے نتائج  شاید بد تر ہوں۔ اس کی بڑی وجہ حال ہی میں ہونے والا یہ فیصلہ ہے جس کے تحت میٹرک سائنس و آرٹس کے امتحانات انگلش میں ہوںگے،سوالیہ پیپرز میں اردو میڈیم کی آپشن ختم کردی جائے گی ۔اس نئی پالیسی کا اطلاق 2025 سے ہوگا۔2026 سے ایف اے کے تمام اختیاری مضامین کا امتحان بھی انگلش میں لیا جائے گا۔سکولوں میں پہلی تا آٹھویں نصابی کتب پہلے ہی انگلش میں کی جاچکی ہیں۔نئی پالیسی کی باقاعدہ منظوری پی بی سی سی کے اجلاس میں دی جائے گی۔طلبہ نے اردوکی آپشن برقرار رکھنے کا مطالبہ کیاہے۔
یہ فیصلہ درست ہے یا نہیں جاننے کے لیے کئی پہلوئو ں پر غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے  تو  یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے سرکاری سکولوں میں کوالٹی آف ایجوکیشن اس معیار کی ہے کہ وہاں پڑھنے والے بچے کا موازنہ پرائیوٹ سکول کے طالب علم سے کیا جاسکے۔ 
ابھی چند ماہ قبل ہی پنجاب کے نگراں وزیر اعظم نے لاہور کے بڑے سرکاری سکول گورنمنٹ پائلٹ ہائی سکول کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت
 1650 بچوں کو  صرف  دس سے بارہ اساتذہ پڑھانے کے لیے آن ڈیوٹی تھے۔ نگراں وزیر اعلی نے جب طالب علم سے پڑھائی کے معیار پر بات کی تو بچے نے کہا کہ ٹیچر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بار ی باری سب سبق کا مطالعہ کریں ۔ ہم مطالعہ کرتے ہیں اور ٹیچر موبائل استعمال کرتے یا سو جاتے ہیں۔ یہ صرف ایک سکول کا حال نہیں ہے بلکہ پنجاب کے زیادہ تر سکول ایسی ہی کارکردگی کے حامل ہیں۔ 
آپ بتائیں کہ ایسے سکولوں میں کوالٹی آف ایجوکیشن کیا ہوگی؟ کیا وہاں کے بچے انگریزی کتب سمجھ کر پڑھ بھی پاتے ہوں گے؟
اب اگر میٹرک کے امتحانات انگریزی میں لیے جانے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو اس سے سرکاری سکولز کی کارکردگی مزید کھل کر سامنے آئے گی۔ جبکہ میٹرک کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کی شرح میں بھی واضح کمی دیکھنے کو ملے گی جس سے پاکستان کا نظام تعلیم ایک مرتبہ پھر دنیا کے لیے موضوع بحث بنے گا۔ 
انگریزی میں میٹرک کے امتحانات کا فیصلہ کرنے سے پہلے طریقہ تدریس کو بدلنا  ضروری ہے۔
ضروری ہے کہ صدیوں سے رائج فرسودہ طریقہ ہائے تدریس کو ترک کر کے وہ طریقہ  تدریس اپنایا جائے جو دنیا بھر میں رائج ہے۔ آج کے دور کاتقاضا محض انگریزی میں نصاب یا امتحانات نہیں ہے بلکہ اساتذہ کے اذہان  و اطوار کو بدلنا بھی اہم ہے۔
کئی سرکاری اسکول ایسے ہیں جہاں پانچ جماعتوں کے لیے صرف ایک استاد ہے۔کئی ایسے اسکول بھی ہیں جہاں اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے لیکن پڑھنے والے بہت کم ہیں۔ دیہات کے بہت سے اسکولوں میں استاد مقرر ہیں لیکن روزانہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ محکمہ تعلیم کی نگرانی کمزور ہے۔ معائنہ کرنے والے غیر حاضر اساتذہ سے رشوت خوری کرکے انہیں چھوٹ دیے رکھتے ہیں۔ سب سے برا حال دیہات کے حکومتی اسکولوں کا ہے۔ ہر سال صوبائی حکومتیں سینکڑوں ارب روپے ان اسکولوں پرخرچ کرتی ہیں‘ زیادہ تر عملہ کی تنخواہوں پر لیکن اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ذمہ داری سے تعلیم و تدریس کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ ان کی توانائی پرائیویٹ ٹیوشن پڑھانے پر صرف ہوتی ہے۔ 
اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کے اختیارات بہت محدود ہیں۔ جو اساتذہ کام نہیں کرنا چاہتے انہیں ہیڈ ٹیچرز سے تادیبی کارروائی کاخوف نہیں۔ ہیڈ ٹیچر زیادہ سے زیادہ محکمہ تعلیم کو انکی رپورٹ کرسکتا ہے۔ اگر ہیڈماسٹر یا ہیڈ مسٹرس کے پاس اپنے زیرنگرانی اساتذہ کو معطل کرنے یا نوکری سے برخاست کرنے کے اختیارات ہوں تو بیشتر مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ اسکولوں میںنظم و ضبط بہت بہتر ہوسکتا ہے۔ لوگوں کی نفسیات ہے کہ جب تک ان کا نگران افسر انہیں نقصان پہنچانے کا اختیار نہ رکھتا ہو وہ اْسکی بات نہیں سنتے۔ ہیڈ ٹیچر اپنے اختیارات کاغلط استعمال نہ کرے اسے غرض سے تحصیل اور ضلع کی سطح پرنگران تعلیمی بورڈز بنائے جاسکتے ہیں جن میں محکمہ تعلیم کے افسران کے ساتھ ساتھ سرکاری افسران جیسے اسسٹنٹ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز شامل ہوں۔ یہ بورڈز اسکولوں کے ہیڈ ٹیچرز کے معاملات کی نگرانی کریں اور ان کے خلاف شکایات پر کارروائی کرسکیں۔
اس کے علاوہ اساتذہ کو جدید طریقہ تدریس سے آگاہ کرنے کے لیے جاری ٹریننگ سیشنز کو موثر بنانا ہو گا ۔ یہ درست ہے کہ کلاس کی کارکردگی ہی استاد کی محنت کو ظاہر کرتی ہے۔
طریقہ تدریس کا براہِ راست تعلق سبق سے ہے۔ استاد مختلف مضامین کے لیے مختلف طریقہ ہائے کار استعمال کرتے ہیں، جو کہ عموماً مضمون کی نوعیت اور استاد کے طریقہ تدریس کے مطابق ہوتے ہیں۔ بعض اوقات انہی کو تدریسی حکمتِ عملی اور تکنیک کہا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں جدیدیت سے طریقہ تدریس بھی ارتقائی مراحل طے کر چْکا ہے۔  اب دنیا روایتی طریقوں کو چھوڑ کر ایسے طریقے اپنا رہی ہے جو طلباء کو رٹہ سسٹم سے دور لے جائے اور اسباق بناء رٹہ طلباء کے اذہان میں نقش کر دے۔
ہمارا مسئلہ یہ رہا ہے کہ ہم پچھلے 75 سالوں سے انگریزی اور اردو کے درمیان ہی پھنسے رہ گئے ۔جبکہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ نصاب اردو میں تھا تو مسئلہ، نصاب انگریزی میں ہوا تو مسئلہ قائم رہا۔ ہم  یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ ہمارے نظام تعلیم میں ڈیلیور کیوں نہیں ہوتا۔ یہ نظام ڈیلیور کرنے والا کیوں نہیں ہے؟ بس جس سے کچھ حاصل نہیں ہورہا اسی نظام کو لے کر چلے جا رہے ہیں۔ اصل مسئلہ سلیکشن سے شروع ہوتا ہے۔ ہم نے سرکاری سکولوں کے لیے جو اساتذہ سلیکٹ کیے  انھوں نے تدریس کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں۔ انہی کی وجہ سے سرکاری سکولوں کی ایک خاص شناخت بن گئی۔ پھر پرائیوٹ سکول کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے سرکاری سکول کے معیار کو مزید نظر انداز کیا جانے لگا ۔ اب عالم یہ کہ سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ  کے کسی بھی افسر سے جب سرکاری سکول کی کارکردگی پر سوال کیا جائے تو وہ سب اچھا چھا ظاہر کریں گے۔اگر اتنا ہی نظام اچھا چل رہا ہے تو یہ افسران اپنے بچوں کو شہر کے نامور پرائیوٹ سکولز میں کیوں پڑھا رہے؟
کیا سرکار کے سکول بھی پرائیوٹ سکولز کی طرح ڈیلیور نہیں کر سکتے؟ آپ کے سسٹم نے  میٹرک تک آنے والے بچے کی بنیاد تو کمزور بنائی، دس سال اسے رٹے پر لگائے رکھا اب فیصلہ کرتے ہیں کہ میٹرک کے امتحانات انگریزی میں ہوں گے۔ تاکہ جو بچے  سرکاری سکولز سے میٹرک پاس کر رہے ہیں وہ بھی ناکام ہو جائیں۔ بہتر یہی ہے کہ یہ فیصلہ کم سے کم پانچ سال بعد کریں، اور اس عرصے میں سرکاری سکول کا معیار تعلیم اتنے بلند کر دیں کہ بچے پانچ سال بعد با آسانی انگریزی سمجھ اور لکھ سکیں۔

ای پیپر دی نیشن