ع۔ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
یہ درست ہے کہ مشکل حالات بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتے ہیں اورکم عمری میں ہی ذمہ داری کا احساس بیدار کر دیتے ہیں۔ میں بات کر رہی ہوں غزہ کے ان متاثرہ بچوں کی جنہوں نے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اپنے گھر کے سبھی افراد کھو دیئے۔ حالات کے مارے دس سال سے اوپر کم عمر بچوں نے اس صورتحال کو خود پر ایسا طاری کیا کہ دوسروں کا سہارا بننے لگے۔
ایسا ہی ایک پندرہ سالہ فلسطینی بچہ ہے جس نے ہوا کی مدد سے بجلی پیدا کی۔ یہ بجلی پناہ گزین کیمپوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ بچے کا دماغ اتنا چلے۔بچے کے اس کارنامے نے اسے ’’نیوٹن آف غزہ ‘‘کا خطاب دیا اور دنیا کو اس رخ پر سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ایسے کتنے کی ذہین دماغ اسرائیل کی بمباری کی نظر ہو چکے ہیں۔ فلسطینی بچے کے اس کارنامے نے یہ رخ بھی دنیا کو دکھایا کہ سالہا سال سے حالت جنگ کے شکار فلسطینی آزادی کے لیے جدوجہد تو کر ہی رہے ہیں لیکن اپنے بچوں کو جدید سائنسی علوم سے بھی متعارف کروارہے ہیں۔ شاید یہاں کا یہ پوٹینشل اسرائیل بھی جانتا ہے اور اسی وجہ سے وہ فلسطین کوصفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ نیوٹن آف غزہ کہلایا جانے والا یہ پندرہ سالہ بچہ حسام العطار کے نام سے جانا جاتا ہے۔
حسام العطار اسرائیلی بمباری کی وجہ سے بے گھر اور تعلیم سے محروم ہے ، حسام العطار غزہ کی بربریت سے جان بچانے کیلئے ایک خیمے میں مقیم ہے، جہاں حسام نے اپنے خیمے کو بنیادی آلات کے ساتھ ہوا کی مدد سے بجلی پیدا کرکے روشن کردیا ہے۔
بچے نے توانائی کی قلت پوری کرنے کیلئے اسرائیلی بمباری سے تباہ غزہ میں جابجا بکھرے الیکٹرانک و دیگر سامان کی مدد سے حاصل کیا۔ حسام نے بجلی پیدا کرنے کے ڈائنمو اور بلینڈ کا استعمال کیا۔ ساتھ ہی حسام نے کہا کہ بیٹریوں کی مدد سے 24 گھنٹے بجلی پیدا ہوسکتی ہے۔
حسام نے غیر ملکی میڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ میں نے اپنے جڑواں بھانجوں کی آنکھ میں ڈر و خوف دیکھا تھا ، وہ خیمے میں اندھیرے کی وجہ سے خوفزدہ تھے اسی لیے میں نے سوچا کیوں نہ انہیں خوشی دی جائے اور خیمے کو روشن کیا جائے، غزہ میں مجھ جیسے اور بھی بہت سے باصلاحیت بچے ہیں لیکن کسی کو ان کی پرواہ نہیں ہے اور کوئی اس پر توجہ بھی نہیں دے رہا۔
ایک انٹرویو میں حسام نے کہا کہ میں عرب ممالک اور پوری دنیا سے جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں، میں بھی باقی سب کی طرح اپنے خوابوں کو پورا کرنا چاہتا ہوں۔
جنگ سے قبل غزہ کی گلیاں بچوں سے بھری رہتی تھیں۔جبکہ ہفتے کے آخر میں اور سکولوں سے چھٹی کے وقت یہاں کے ساحل، پارکس اور کھیل کے میدانوں میں بچوں کے ہنسنے اور کھیلنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ لیکن غزہ کے بچوں کو اپنی مختصر زندگی میں بہت کچھ سہنا پڑا ہے۔ 15 سالہ حسام نے اپنی زندگی میں حالیہ تنازع سمیت پانچ جنگوں کی ہولناکیوں کا مشاہدہ کیا ہو گا۔
حسام جیسے کئی بچے فلسطین کا روشن مستقبل تھے لیکن آج فلسطین کی سرزمین ان بچوں سے خالی ہے۔ ایسا ہی ایک نو سالہ عمر المدہون فٹ بال کے کھیل کا دیوانہ تھا۔ وہ اپنے والد ماجد سے اس بات پر لڑتا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا کھلاڑی کون ہے۔ عمر اور ان کے والد جس رات شہید ہوئے اس رات عمر کے دادا نے اپنے خواب میں عمر کو نوجوان حلیے میں دیکھا۔خواب دیکھنے پر عمر کے دادا آدھی رات کو بیدار ہو گئے اور 10 منٹ نہیں گزرے کہ اسرائیلی حملے میں عمر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔دراصل یہ خواب اللہ کی جانب سے بشارت تھی کہ عمر جنت کے جوانوں میں سے ایک ہے۔
بہر حال اسرائیلی جارحیت جاری ہے اور وہاں کے باشندے اپنے بچوں کو محفوظ مقامات تک لے جانے کے لیے آج بھی سر گرداں ہیں۔ جبکہ دیگر ممالک اسرائیل کے گرد شکنجہ تنگ کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔