پاکستان کیلئے مشکل ترین گھڑی

اگلے چند ہفتے ہر ملک بلکہ دنیا کی تقدیر بنانے یا بگاڑنے کا اہم وقت ہے۔ مسٹر بارک اوباما حسین اور امریکی حکومت کے نئے عہدے دار خوب محنت کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنا اپنا کردار خوش اسلوبی سے ادا کرسکیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور ہے اس لئے وہ ہر سمندر، براعظم، خطہ، ہر قوم، نسل اور ہر ایک ملک کی تاریخ، جغرافیہ، سوچ، مذہب، دوستی، دشمنی، حتیٰ کہ ہر پہلو کا مطالعہ کر کے اپنی پالیسیاں بنانے میں لگا ہوا ہے۔ صدر بارک اوبامہ خود مکمل لگن کیساتھ اپنے صدارتی سفر کا آغاز کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان کی طرح نہیں کہ گیارہ ماہ گزرنے کے باوجود ملک کو پتہ نہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
چونکہ دنیا کے تقریباً ہر ملک کا واسطہ کسی نہ کسی پہلو سے امریکہ کیساتھ پڑتا ہے اس لئے وہ بھی اپنے طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ انکے اپنے مفادات کا تحفظ حاصل ہو جائے۔ بنیادی طور پر ہر ملک اپنی معیشت اپنی سیکورٹی اپنی ترقی و خوشحالی اور پرسکونی کا خود ذمہ دار ہوتا ہے لیکن دنیا کا ایک گلوبل شہر بننے سے انتظامیہ کا ہر پہلو کسی نہ کسی طرح متاثر ہو جاتا ہے۔ اس لئے اچھی پالیسیاں بنانا بھی ازخود بہت مشکل ہو گیا ہے اور ان پر کامیابی سے عمل پیرا ہونا بھی پل صراط پر سے گزرنے کے مترادف ہے۔ دنیا کے امیر ممالک اور وہ جو خوش قسمتی سے ایسے خطے میں واقع ہیں جہاں پرسکون رہ سکتے ہیں انہیں تو کم تکلیفات سے دوچار ہونا پڑتا ہے لیکن وہ ممالک جو غریب بھی ہوں اور بھڑوں کے چھتوں کے آس پاس رہتے ہوں انہیں ہر پہلو اور ہر کروٹ مشکلات ہی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ نہ چپ رہ سکتے ہیں اور شور نہ مچا سکتے ہیں۔ نہ انسانی حقوق مانگ سکتے ہیں اور نہ اپنے وسائل کو آرام سے استعمال کر سکتے ہیں۔ وہ کسی ایک پڑوسی کو دوست بنائیں تو دوسرا ناراض ہو جاتا ہے اور اگر شرافت سے کسی کو کچھ نہ کہیں تو سب ناراض اور زیادتی کرنے لگتے ہیں۔ ایسے ممالک کیلئے آج کل کی دنیا میں آرام سے جینا محال ہو گیا ہے۔
ایسے ممالک کے لیڈر بھی بدقسمتی سے بک جانے اور جھک جانے کو عار نہیں سمجھتے۔ نتیجتاً عوام ہی ہیں جو غربت اور ذلت سے دوچار ہیں۔ جغرافیائی اہمیت اور تیل کی دولت سے مالا مال مشرق وسطیٰ ایک ایسا خطہ ہے جو بین الاقوامی سازشوں کا مرکز بن گیا ہے۔ سنٹرل ایشیا کی متعدد ریاستیں جو سوویت یونین سے آزاد ہوئی ہیں وہ بھی اسی خطہ میں اہمیت کی حامل ہوگئی ہیں۔ عوامی جمہوریہ چین اور ہندوستان کی سرعت سے ترقی سے جنوبی ایشیاء بھی سازشوں کی لپیٹ میں آ گیا ہے۔
اہل مغرب نے کمیونزم کے زوال کے بعد مذہب اسلام کو اپنا ہدف چن لیا تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کے مسلمان ممالک کسی بھی خطہ میں نہ طاقتور بن سکیں اور نہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے اسرائیل تو ان کا پہلے ہی اتحادی تھا اور اب ہندوستان اور روس بھی انکے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس طرح وہ مسلمان ممالک کی دولت کو اپنی ترقی و خوشحالی کیلئے حتی الوسع Exploit کرتے رہیں گے۔
اس وقت دنیا میں کوئی بھی مسلمان ملک نہیں ہے جہاں امریکہ یا اہل مغرب نے مسلمانوں کو مذہب کی وجہ سے ارادتاً ضرب لگانے کا عمل نہ کیا ہو اور تو اور انہیں غزہ کا شہر بھی اسرائیل کے قبضے میں رہتے ہوئے بھی خود مختار گوارا نہیں۔ نتیجتاً سب کی سب مسلمان حکومتیں انکی مرضی کیمطابق چل رہی ہیں۔ صرف ایران واحد اسلامی ملک ہے جو اپنی خود مختاری اور آئیڈیالوجی پر ڈٹا ہوا ہے لیکن جلدی یا بدیر ان کیخلاف کارروائی کا یقیناً امکان ہے جس کیلئے یہ مغربی درندے اپنے پر تول رہے ہیں۔ امریکہ ایک ایسا دیو قد جمہوری ملک ہے جس کی پالیسیاں ایک تیز رفتار گاڑی کی مانند ہیں جو جلدی سے موڑ نہیں مڑ سکتی۔ البتہ وہ بڑے دائرے کو عبور کر کے سمت تبدیل کرسکتی ہے۔ اس طرح وہ اپنی طے شدہ پالیسیوں کے اہداف حاصل کرنے کیلئے اپنی سٹریٹجی اور Tactics میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ صدر بارک اوبامہ مسلمانوں کو کمزور، تیل کے کنٹرول اور جمہوریہ چین کا سدباب کرنے کی پالیسی کو تو کبھی تبدیل نہیں کرے گا۔ البتہ وہ اپنی Priorities اور طریقہ کار پر نظرثانی کر سکتا ہے۔ پاکستان کو چاہئے کہ فوراً حرکت میں آ کر امریکہ کے پالیسی ساز اداروں کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کریں تاکہ وہ جو بھی قدم اٹھائیں ہمارے فائدے میں رہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے زعماء ابھی تک تو امریکی Strategy کو اپنے حق میں موڑنے کی کوئی خاطر خواہ تجویز نہیں پیش کر سکے ہیں اور اگر ہماری نالائقی اسی طرح جاری رہی تو قوم کو آگاہ ہونا چاہئے کہ وطن عزیز کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور بعد میں امریکہ کی بھاری بھر کم پیش قدمی کو روکنا ہمارے لئے ناممکن ہوجائیگا۔ پاکستان کے دانشوروں پارلیمنٹ کے ممبران، بیورو کریسی کے عہدے داروں، ریٹائرڈ سول اور ملٹری افسروں، سول سوسائٹی کے بزرگوں اور میڈیا کے چیدہ نمائندوں کو غیر اہم موضوعات کو ترک کر کے قومی پالیسی بنانے اور اسکی تشہیر پر توجہ مخصوص کرنی چاہئے۔ پاکستان میں پاکستان سے منسلک جو حادثات آئے دن ہو رہے ہیں وہ نارمل حالات میں تو اہم ہیں لیکن اس وقت امریکی بمباری کراچی میں بدامنی، مختلف شہروں میں خود کش حملے وغیرہ حتیٰ کہ بمبئی میں دہشت گردی بھی پس پشت ڈال کر انتظامیہ پر چھوڑ دی جائے اور ایک مستند قومی پالیسی بنانی چاہئے تاکہ ریاست ہائے امریکہ کو اس پالیسی کے حق میں قائل کیا جائے۔
بہتری تو اسی میں تھی کہ ہماری پارلیمنٹ قومی پالیسی بنائے لیکن اسکی غیر فعال کارکردگی سے قوم مایوس ہو چکی ہے اس لئے پاکستان کے ہر طبقہ فکر کو قومی پالیسی بنانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کیساتھ ساتھ میری ناقص رائے میں ایک ایسا داناؤں کا گروہ تیار کیا جائے جو فی الفور قومی پالیسی مرتب کرے اور یہ پالیسی امریکہ کے پالیسی ساز اداروں تک بلکہ بنفس نفیس بارک اوبامہ حسین تک پہنچا دی جائے۔مجھے یقین ہے کہ اگر ہم خلوص کیساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرینگے تو امریکہ جیسے عظیم ملک کے رہنما مناسب غور و خوض کرینگے اور نتیجہ اچھا نکلے گا۔ پاکستان کو اس وقت ایک سادہ قومی پالیسی پر اکتفا کرنا چاہئے اور وہ صرف دو نقاط پر مشتمل ہے۔
اولاً یہ کہ پاکستان کے 99 فید عوام سمجھتے ہیں کہ افغانستان ہمارا دوست، پڑوسی، دینی بھائی اور ثقافتی رشتہ دار ملک ہے۔ ہمارا ان کیساتھ کبھی بھی کوئی تنازع نہیں رہا۔ہم نے انکی روس سے آزادی کیلئے بہت قربانیاں دی تھیں جن کی بدولت ہمارے تعلقات میں مزید قربت اور روحانی ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے اس ملک پر چڑھائی کی اور ہمارے اس وقت کے طاقتور ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے ان کا ساتھ دیا۔ یہ اس کا ذاتی فیصلہ تھا جس میں نہ افواج پاکستان متفق تھے اور نہ ہی باشعور عوام۔ اب چونکہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت قائم ہو چکی ہے جس کا سہرا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سر پر ہی جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فرد واحد ڈکٹیٹر کی غیر مقبول پالیسی کو عوام الناس کی خواہش کے مطابق تبدیل کر دیا جائے۔ ہم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اتحادی رہتے ہوئے افغانستان کے عوام کیخلاف کسی قسم کی کارروائی، مدد یا فوج کشی سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک سے لاجسٹک، زمینی اڈے اور ہوائی سہولت کا خاتمہ کر دیا جائے اور متبادل انتظامات کر دئیے جائیں۔
دوئم یہ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور انکے اتحادیوں نے افغانستان پر قبضہ جمانے کیلئے ہمارے ملک میں شدید افراتفری پھیلا دی ہے۔ ہمارے ملک میں سول وار جاری ہے جس کے ختم ہونے کیلئے کوئی امید نہیں ہے۔ یہ اس لئے کہ پاکستان کے 99 فیصد عوام سمجھتے ہیں کہ افغانستان کے عوام پر اہل مغرب بشمول روس کے پچھلے چالیس سالوں سے ظلم کر رہے ہیں۔ وہاں کے ایک نامنتخب لیڈر (قطع نظر کہ وہ ہردلعزیز تھا یا نہیں اس کا فیصلہ درست یا غلط تھا) کی وجہ سے اس قوم کو دنیا کی تاریخ کی بے مثال سزا دی جا رہی ہے۔ پاکستان کے عوام کے دلوں میں افغانستان کے عوام کیلئے ہمدردی تو نہیں نکالی جاسکتی۔ البتہ ہمارے موجودہ معاشی مشکلات اور خطہ میں ہندوستان کی وجہ سے عدم تحفظ کی بناء پر ہم افغانستان کو عملی مدد دینے سے دستبردار ہو سکتے ہیں‘ اسلئے یہ حملہ آور ٹولہ ہمارے ملک میں مداخلت کی ہر صورت کو بند کر دے نہ ہوائی حملے کریں اور نہ ایجنسیوں کی کارروائی کریں۔ ان کے ایسا کرنے سے ہم اپنے قبائل اور ملک کے اندر لا سکیں گے۔ ہم اپنے مغربی اتحادی ٹولہ کو یقین دلا سکتے ہیں کہ ہماری سرحدیں مکمل Seal ہو جائیں گی اور یہاں سے نہ کوئی جہادی جائے گا اور نہ کوئی مجاہد افغانستان سے پاکستان میں پناہ لے سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...