غم سے نڈھال سفید ریش بزرگ نے پہلے خالی خالی آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر اہل زمین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اگر دے سکتے ہو تو مجھے انصاف دو۔ پھر اس نے دوبارہ آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دئیے اور رندھی ہوئی آواز میں کہا اے خالق ارض و سما تُو دیکھ رہا ہے اس بستی میں کتنا ظلم ہو رہا ہے اس بستی والوں سے مجھے انصاف کی توقع نہیں، تُو آسمانوں سے میری مدد کو آ اور میرے اکلوتے بیٹے کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچا۔ آسمانوں کی طرف یہ فریاد بلند کرنے والا رینٹل پاور کیس کے مقتول تفتیشی افسر کامران فیصل کا غمزدہ باپ تھا۔ کامران فیصل کی رپورٹ میں راجہ پرویز اشرف سمیت 16 ایسی شخصیات کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے جن میں سے اکثر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کروڑوں کے نہیں اربوں کے مالک ہیں۔ افسر شاہی اور سیاست سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات کے بارے میں عام شہرت یہی ہے کہ انہوں نے کئی دہائیوں سے لوٹ مار کرنے میں ”اتّ مچائی“ ہوئی ہے۔
ہم اپنے دھرنوں، شعلے اُگلتے بیانوں، مظاہروں، جلسوں، جلوسوں اور فلک شگاف نعروں میں اتنے مگن ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ ہماری زندگیوں کو جہنم زار بنانے میں ظلم و ستم کتنا آگے بڑھ چکا ہے۔ اس ملک میں چیونٹی مارنا مشکل مگر انسان مارنا آسان ہے یا بہت آسان۔ شکاری صبح دم گھر سے نکلتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جسے چاہتے ہیں اسے موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ پھر حکمرانوں کی مہیا کردہ پناہ گاہوں میں دادِ عیش دیتے ہیں انہیں قانون کا ڈر ہے نہ کسی مذہب کا خوف، قانون کا خوف انہیں اس لئے نہیں کہ خود قانون کے محافظ انہیں اہداف دیتے ہیں اور اہداف کو ٹھکانے لگانے پر انہیں شاباش دیتے ہیں۔
نہایت غور سے نیب کی اس رپورٹ کی چند سطریں ملاحظہ فرمائیے اور پھر ذرا سوچئے کہ کامران فیصل کو کیوں ٹھکانے لگایا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نیب کی رپورٹ پر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سمیت 16 اہم ملزموں کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے۔ معاملے کی تفتیش کے دوران نیب حکام نے کامران فیصل کو ایک تفتیشی افسر سمیت یہ کہہ کر تفتیش سے الگ بھی کیا تھا کہ سپریم کورٹ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تاہم سپریم کورٹ نے یہ بات نوٹس میں لائے جانے کے بعد انہیں بحال کر دیا تھا اور چیئرمین نیب کو اس معاملے میں توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا تھا۔ کامران فیصل نیب میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر فرائض سرانجام دے رہے تھے۔
کامران فیصل کے والد حاجی عبدالحمید ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت کوئٹہ تھے۔ انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے مجھے بتایا کہ ان کا بیٹا مضبوط اعصاب کا مالک تھا۔ وہ نہ بکنے والا، نہ جھکنے والا اور نہ بڑے سے بڑا دباﺅ خاطر میں لانے والا تھا۔ میرے بیٹے نے ہمیشہ ہر امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ رینٹل پاور کیس کی تفتیش کے امتحان میں بھی وہ سرخرو تھا۔ وہ اتنا ایماندار تھا کہ آج تک اس نے سرکاری گاڑی استعمال نہ کی۔ حاجی عبدالحمید نے بتایا کہ 13 جنوری کو کامران فیصل میاں چنوں سے اسلام آباد بذریعہ ٹرین گیا۔ کامران فیصل کے والد نے کہا کہ میرے بیٹے نے خودکشی نہیں کی بلکہ قومی خزانے کے اربوں روپے لوٹنے والوں نے اس کو قتل کر کے اپنے راستے سے ہٹا دیا اور اپنے تئیں تفتیش کا دروازہ بند کر دیا۔ کامران فیصل کے ساتھیوں نے بھی کم و بیش ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان ساتھیوں میں نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹرز، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز اور دیگر افسران و کارکنان شامل ہیں۔ ان سب لوگوں نے بتایا ہے کہ کامران فیصل انتہائی فرض شناس اور دیانتدار افسر تھا، کوئی بڑے سے بڑا دباﺅ اسے جھکا سکتا تھا اور نہ کوئی بڑے سے بڑا لالچ اسے خرید سکتا تھا۔ کامران فیصل کے دوستوں کی یہ بات درست ہے۔ ایسے صادق و امین لوگ لوٹ مار کرنے والے بددیانت سیاستدانوں اور افسروں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے ہیں۔ کامران فیصل کے نیب سے تعلق رکھنے والے ساتھیوں کی باتیں سُن کر مجھے ایک تسلی ضرور ہوئی کہ نیب میں اوپر کی سطح پر یقیناً ایسے لوگ ہیں جو وی آئی پی اور وی وی آئی پی سطح کے ملزموں کیلئے ڈھال فراہم کرنے اور انہیں کیفر کردار سے بچانے کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں مگر نیچے کی سطح پر افسروں کی ایک لمبی قطار اسلام آباد اور لاہور میں موجود ہے جو کامران فیصل کے دردناک انجام کے بعد بھی اپنی زندگیوں کو ہتھیلی پر رکھ کر سچ بولنے اور بااثر مجرموں کو بے نقاب کرنے کا تہیہ کئے ہوئے ہے۔
حکمران ہر شے سے بے نیاز لوٹ مار کرنے اور اگلے انتخابات خریدنے کیلئے زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے میں مگن ہیں۔ اس کام میں انہوں نے اپنے اتحادیوں کو بھی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور وہ اتحادی بھی بے لگام ہو کر لوٹ مار ہی نہیں قتل و غارتگری بھی کر رہے ہیں مگر اپوزیشن کی توجہ ہونی چاہئے کہ اس ملک میں انسانوں کو مکھیوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ معیشت کو گور کنارے پہنچا گیا ہے۔ آئی ایم ایف قرضے معاف کرنے اور نہ قسطوں کو ری شیڈول کرنے پر تیار ہے۔ مہنگائی اتنی زیادہ ہو چکی ہے کہ عام کیا خواص کی پہنچ سے بھی قیمتیں بلند ہیں۔ بے روزگاری اتنی کہ ملک کی آدھی آبادی کے پاس کوئی کام نہیں۔ بجلی نہیں، گیس نہیں، روٹی نہیں، روزگار نہیںمیڈیا اور عدلیہ کی کوششوں، کاوشوں اور جرا¿توں سے اگر کوئی وی آئی پی مجرم یا ان کا کوئی فرنٹ مین پکڑا جاتا ہے تو انہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی گواہی نہ دے گا اور اگر اپنی زندگی کے چراغ کو ظلم کی آندھیوں کے خلاف ہتھیلی پر لے کر کوئی گواہ میدان میں آ جاتا ہے تو اسے نہایت بے دردی اور ڈھٹائی کے ساتھ قتل کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کراچی کا دس پندرہ سالہ ریکارڈ نکلوا کر دیکھ لیں بااثر قاتلوں نے درجنوں تفتیشی پولیس افسروں کو ٹھکانے لگا دیا ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے شیخ الاسلام چند انتخابی اصلاحات کیلئے دھرنا تو دیتے ہیں جن میں سے ایک بھی نہیں مانی جاتی اور پھر جس مک مکا کا وہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو طعنہ دیتے تھے اس مک مکا کا خود حصہ بن جاتے ہیںاسی طرح حزب اختلاف کی جماعتیں ظلم کے خلاف کوئی زوردار اور جاندار صدائے احتجاج بلند نہیں کرتیں۔ سیاسی دکانداری چمکانے والے بعض سیاستدانوں کی آغوش میں مجرم پلتے ہیں اور ان کی ہی اشیرباد سے وہ انسانوں کی بستی کو درندوں کی بستی بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ دینی علم و آگہی رکھنے اور ربّ ذوالجلال کے جلال سے ڈرنے والے ہمارے سیاستدان اس ظلم و ستم کے بارے میں خاموش کیوں ہیں۔ ظالم حکمرانو! ڈرو مظلوم کامران فیصل کے غمزدہ باپ کی آہ عرش پر پہنچ چکی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ذریعے کامران فیصل اور دوسرے مظلومین کے لواحقین کو فی الفور انصاف ملے تاکہ ان کے غم میں کچھ کمی تو واقع ہو۔