پیر،8 ربیع الاوّل ‘ 1434ھ ‘21 جنوری2013 ئ

Jan 21, 2013


معروف گلوکار مہناز55 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔
 آہ مہناز،فلمی دنیا کا ایک اور ستارہ ٹوٹ گیا ،لوگوں کی ذہنی بالیدگی کا اہتمام کرنے والی یہ مشّاق گلوکارہ آج انہیں رُلا کر جارہی ہے۔مشہور مقولہ ہے کہ ” جس کی اذان ہوئی ہے اسکی نماز بھی ہوگی“ کسی بھی فردکے سفر آخرت پرروانہ ہونے سے یقینا پورے گھرانے اور عزیزو اقارب پررنج و الم کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں کیونکہ آخرت کے سفر سے کسی کی واپسی ممکن نہیں۔ مہناز نے اپنی زندگی میں کامیابیاں ہی کامیابیاں سمیٹی ہیں، ہر کسی نے یہ دن دیکھنا ہے کوئی آج چلا گیا ،تو کوئی کل گیا، بحیثیت مسلمان حیات و ممات پر ویسے ہی ہمارا ایمان ہے،بس یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ....
 قبر میں ہوگا ٹھکانہ یاد رکھ
آئے گاوہ بھی زمانہ یاد رکھ
 مہ ناز کی آواز میں جادو تھا وہ جب گاتی تو لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ،انکا یہ گیت بہت مقبول ہوا....
 میں جس دن بھلا دو تیرا پیار دل سے
وہ دن آخری ہو میری زندگی کا
 آج مہذب اور شائستہ گائیکی کاایک چراغ گُل ہوگیا ہے۔میوزک سننے والے دنیا بھر کے لوگ آج اس گُل کے مرجھانے سے افسردہ ہیں۔ساری دنیا کو اس بات کا دلاسہ دینے والی کہ ” پیار کا وعدہ ایسے نبھائیںگے لہروں کی طرح تجھ کو بکھرنے نہیں دیں گے“ آج وہ فلمی دنیا کی شہزادی اپنے ہی عہد کو توڑ کر اس جگہ جاچکی ہے جہاں سے واپسی کا تصور ہی نہیں۔اللہ تعالیٰ اس کی تمام لغزشوں کو معاف فرمائے اور اسے اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے۔
٭....٭....٭....٭....٭
 غریب صوبے کے امیر وزیراعلیٰ، امیر حیدر ہوتی کی ہیلی کاپٹر ز پر مشیر کے گھر آمد خزانے کو لاکھوںکا نقصان۔
امیر حیدر ہوتی اپنے مشیر خاص کو اسکے نئے محل کی مبارکباد دینے سرکاری ہیلی کاپٹر پر آئے 3گھنٹے گپیں لگانے کے بعد واپس چلے گئے....ع
”ایسے ہونگے حکمران تو خاک ترقی کریکا پاکستان“
 امیر حیدر ہوتی نے 5سال میں کافی پیسہ بنا ہی لیا ہوگا۔ انہیں اصولی طورپر یہ اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے چاہئیں تھے لیکن انہوں نے غریب عوام کی جیب پرڈاکہ ڈالکر اپنا دل پرچایا،ایسی فضول خرچی تو حامد کرزئی بھی نہیں کرتا جو باچا خان کے اس نام نہاد مقلّدنے کی ہے پورے صوبے میں لاشیں بکھری پڑی ہیں۔خوف و ہراس کے سائے ہر درودیوار کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں۔لاشے تڑپ رہے ہیں جبکہ زخمیوں کی آہ و بکا ہفت آسمان کے کِنگرے ہلا رہی ہے لیکن صوبے کا وزیراعلیٰ مشیر خاص کے محل بنانے کا جشن منا رہا ہے۔ایسی بے حسی کے باعث ہی قدرت کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے،پھر ایک مچھر ناک میں گھس کر عیاشیوں کو منطقی انجام تک پہنچاتا ہے ،انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ حکمران طبقات راہزنوں کے لبادے میں پورے ملک کو دونوں ہاتھ سے لوٹ رہے ہیں، انہیں یاد رکھناچاہئے کہ اگر یہاں احتساب نہیں ہوگا تو یقینی طورپر عنقریب ایک سخت احتساب ہوگا وہاں کوئی پارٹی سربراہ آپ کو بچا سکے گا نہ ہی کوئی این آر او آئیگا،اس لئے ذرا سنبھل کر چلیں کیونکہ اس احتساب کے وقت کا کسی کو علم نہیں اس وقت حکمرانوں کو سمجھانا تو بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے کیونکہ ان کے ذہنوں میں اپنی حکومت کا خمار اس طرح رچ بس گیا ہے جیسے ابدی حکمران یہی ہوں،خیبر پی کے کے حالات حبیب جالب کے اس شعر سے مختلف نہیں ہیں....
 اب بھی پیٹ کی خاطر بک رہی ہے مجبوری
 اب بھی ہے غریبوں کی ا شک و آہ مزدوری
 اب بھی جھونپڑوں سے ہے نور علم کی دوری
آج بھی لبوں پر ہے داستان مہجوری
٭....٭....٭....٭....٭
 کسی مقدمے کا20سال بعد فیصلہ انصاف کے قتل کے مترادف ہے:جسٹس منظور
 سچ کہتے ہیں کہ جج کو اپنے فیصلوں کے ذریعے بولناچاہئے،اگر کسی مجرم کا فیصلہ 20سال بعد ہو جس میں وہ عدم ثبوت کی بنا پر بری کردیا جائے تو ان 20سالوں کا حساب کون دیگا جو اس کے ضائع ہوئے ہیں اس لئے انصاف میں تاخیر کے جو بھی محرکات ہوں وہ انصاف کی عملداری کو بہرصورت گہنا جاتے ہیں، انصاف کی گاڑی کے پہیوں کو اس کا دھیان رکھناچاہئے تاکہ یہ گاڑی سبک فراہمی سے چلتی اور سائلین کو انکی دہلیز پر بروقت انصاف فراہم کرتی رہے اگر ججز حضرات باریک بینی سے اس کیس کو دیکھ کر جلد فیصلہ کریں تو اس آدمی کی زندگی میں جیل کے عذاب سے بچ جائے اوراسکے گھروالوں کو بھی سکون نصیب ہو۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ نے آزادی کے بعد نئی کروٹ لی ہے جس کے باعث اس کے فیصلے خود بول رہے ہیں اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی انصاف میں تاخیر کا عمل انصاف کے قتل تک نہیں جانے دیناچاہئے۔بیرون ممالک میں خوشحالی انصاف کی جلد فراہمی کے باعث ہی آتی ہے کسی نے انہیں خوشحالی طشتری میں رکھ کر نہیں دی بلکہ ہر فرد نے انفرادی طورپر محنت کرکے یہ خوشحالی امن و سکون حاصل کیا ہے۔فاضل جج ہائیکورٹ کا یہ جملہ عدل گستری میں باعث تقلید ہی نہیںسونے سے لکھنے کے قابل بھی ہے ۔عدلیہ بحالی تحریک میں ہر محفل کی زینت بننے والے ان اشعار پرعمل کرنے سے بھی معاملات بہتر ہوسکتے ہیں....
 خوشبوﺅں کا اک نگر آباد ہوناچاہئے
اس نظام زرکو اب برباد ہوناچاہئے
 ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
 عدل کو بھی صاحب اولاد ہوناچاہئے
٭....٭....٭....٭....٭

مزیدخبریں