وزیرآباد (نامہ نگار) ننانوے سال قبل 480 ایکڑ اراضی پر معرض وجود میں آنے والی ایشیاءکی سب سے بڑی فش سیڈ ہیچری عدم توجہ کی بنا پر مسائلستان بن چکی ہے تفصیلات کے مطابق 1914 کو چھنانواں کے مقام پر 480 ایکڑ اراضی پر مچھلی کے گوشت کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فش سیڈ ہیچری بنائی گئی جو پاکستان سمیت بیرون ممالک میں مچھلی بچہ سپلائی کرتی آ رہی ہے جو بے شمار مسائل کے باوجود اپنا کام سرانجام دے رہی ہے 480 ایکڑ رقبہ پر محیط ہیچری کو بجٹ صرف 80 ہزار دیا جا رہا ہے جو کہ صرف 5 ایکڑکے لیے ہے ہیچری کو چلانے کے لیے شروعات میں 130 ملازم کام کرتے تھے مگر اب صرف 42 آدمی کام کر رہے ہیں آٹھ انسپکٹر کی بجائے صرف ایک انسپکٹر خدمت سرانجام دے رہا ہے آسامیاں خالی ہونے کی وجہ سے دفتری معاملات مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں ذرائع کے مطابق یہاں آٹھ سال میں آٹھ سے لے کر تین بجے کے دوران میں صرف ڈیڑھ گھنٹہ بجلی آئی ہے ہیچری کوارٹرز عدم توجہ کی وجہ سے کھنڈرات بن چکے ہیں لیکن ان کا رینٹ پورا وصول کیا جا رہا ہے انگریز دور میں بننے والی ہیچری کی آٹھ کلومیٹر لمبی نہر جس کی کھدائی قیدیوں سے کروائی گئی تھی ڈپٹی ڈائریکٹر عمر زمان طاہر نے میڈیا کو بتایا کہ مسائل کے باوجود مالی سال 2012-13 میں ٹارگٹ سے زیادہ 43 لاکھ جمع کروا چکے ہیں بجٹ اور عملے کی کمی کے باوجود ٹارگٹ سے زیادہ حکومتی خزانے میں جمع کروائے گئے جس پر سرکار نے تعریفی اسناد اور لیٹر دینے کا اعلان کیا جو آج تک پورا نہیں ہو سکا، مالی سال 2012 میں 82 ہزار نو نسلوں پر مشتمل بچہ پیدا کر چکے ہیں ہیچری کا بجٹ اور ملازمین کی تعداد پوری ہو جائے تو نہ صرف افزائش نسل میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ مچھلی کے گوشت کی بھی فراوانی ہو سکتی ہے اس کے باعث مہنگائی میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔
ایشیا کا سب سے بڑا ہیچری فارم عدم توجہ سے مسائل کا شکار
Jan 21, 2013