گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ بطور گورنر انہیں جو پروٹوکول مل رہا ہے اس سے وہ سخت ذہنی اذیت اور کوفت میں مبتلا ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک سیدھے سادھے انسان ہیں اور انہیں کسی قسم کے ایسے پروٹوکول کا شوق نہیں بلکہ یہ سب کچھ ان کیلئے تکلیف دہ ہے۔ تاہم تمام تر کوششوں کے باوجود ان کا دل گورنر ہائوس میں نہیں لگ سکا۔
برطانیہ میں اٹھائیس سال رہنے کے بعد وطن عزیز پاکستان کی خدمت کے جذبہ نے انہیں برطانوی شہریت چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس وقت انہیں ہرگز یہ معلوم نہیں ہو گا کہ وہ یہ خواہش تو رکھتے ہیں مگر اس جنت میں انہیں اکیلا رہنا پڑیگا۔ وہ جس آزاد جمہوری ملک سے آئے ہیں وہ اس جنت کے مقابلے میں دوزخ ہے جہاں اراکین پارلیمنٹ، وفاقی وزراء حتیٰ کہ وزیراعظم وغیرہ کو بھی ہمارے ملک جیسا وی آئی پی لائف سٹائل حاصل نہیں ہے۔ چودھری محمد سرور صاحب برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہے ہیں جبکہ ایک اور پاکستانی شخصیت لارڈ نذیر احمد نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ میں نام کا تو لارڈ ہوں لیکن میرے پاس نہ کوئی ڈرائیور ہے اور نہ خانساماں ہے، مجھے برطانیہ میں تمام کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں اور حکومت کی طرف کسی بھی شخص کو پروٹوکول قسم کی کوئی چیز نہیں دی جاتی، ہر شخص اپنے کام بخوشی خود کرتا ہے۔ انگریزوں کی یہ کتنی ہوشیاری ہے کہ جب وہ برصغیر میں حکمران تھے تو بھرپور وی آئی پی کلچر کو انجوائے کرتے تھے، یہ گورنر ہائوس بھی اسی عہد غلامی کی نشانی ہے، مگر اپنے ملک میں انہوں نے اس کلچر کو قریب بھی نہیں پھڑکنے دیا۔ وہاں وزیراعظم کی آمد و رفت کیلئے بھی ٹریفک بند نہیں کی جاتی اور وہ عام شہریوں کی طرح آزادانہ گھومتے ہیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی برطانیہ کے دورے پر گئے وہ برطانوی وزیراعظم کے ساتھ لندن میں کہیں جا رہے تھے انہیں ٹریفک میں جب ایک گھنٹہ سے زیادہ لگ گیا تو انہوں نے برطانوی وزیراعظم سے استفسار کیا کہ آپ نے ٹریفک روکنے کا حکم نہیں دیا تھا، ٹریفک بہت سست چل رہی ہے، اس پر انہوں نے جواب دیا کہ اپنے وطن کے عوام کو سڑکوں پر روک کر اپنی گاڑیاں گزارنے سے عوام کے بنیادی حقوق اور جمہوریت کی روح زخمی ہو جاتی ہے، سڑک پر چلنے والے تمام لوگوں کے حقوق یکساں ہیں اور یہ ایک دوسرے کے کولیگ ہیں، یہاں کسی کو وی آئی پی کا درجہ حاصل نہیں ہے، ہم نے صرف ایمبولینسوں کیلئے ہر سڑک پر الگ ٹریک بنایا ہوا ہے تاکہ وہ جلد از جلد بغیر کسی رکاوٹ کے آ جا سکیں۔ برطانوی وزیراعظم کا یہ جواب سن کر گیلانی صاحب کھسیانی سی ہنسی اور کھانسی کے بعد چپ ہو گئے۔گورنر صاحب کے بیانات پڑھ کر انکی ذہنی اذیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر اور گورنرز کے پاس سوائے کچھ دستخط کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ ایک انتہائی متحرک اور مصروف زندگی گزارنے والا شخص جب فارغ ہو گا تو اسی طرح گھبرا جائیگا۔ اسکے باوجود گورنر صاحب نے اپنے لئے کچھ کام تلاش کر لئے ہیں اور آجکل وہ گورنر ہائوس کا پانی صاف کرانے میں مصروف ہیں، کبھی کبھی تعلیمی شعبہ میں انقلاب برپا کرنے کے آرزو مند نظر آتے ہیں، ہو سکتا ہے وہ اپنی خواہشات کی تکمیل میں کامیاب ہو جائیں۔
بصورت دیگر وہ اچانک کسی روز اعلان کر دیں کہ میں بطور گورنر کسی چھوٹے سے گھر یا فلیٹ میں رہونگا اور وہیں اپنا آفس بھی بنا لونگا۔ اس گورنر ہائوس کو میں آزاد کرنے کا اعلان کرتا ہوں، عہد غلامی کی اس عظیم الشان عمارت میں یہاں کوئی یونیورسٹی بنانے کا اعلان کرتا ہوں اور خود بھی سکیورٹی کے تمام حصار توڑتے ہوئے آزاد شہری کے طور پر سڑکوں سے ہر قسم کی رکاوٹیں کھولنے اور شہریوں کی تمام پریشانیوں کو ختم کرنے کا اعلان کرتا ہوں، جس سے لاکھوں شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کے اس فیصلہ سے وطن عزیز سے محبت کا حقیقی ثبوت مل جائیگا کیونکہ ہمارے ملک کے کسی سیاسی رہنما سے ایسا قدم اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
وی آئی پی کلچر اور گورنر پنجاب
وی آئی پی کلچر اور گورنر پنجاب
Jan 21, 2014