”مذاکرات نہ کرنے والے طالبان کو الگ کیا جائے گا‘ غیرملکیوں کی نشاندہی ہو گی“: قومی سلامتی پالیسی‘ منظوری موخر

Jan 21, 2014

اسلام آباد (جاوید صدیق) وزیراعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں کابینہ کے بعض ارکان نے قومی سلامتی پالیسی کے مسودے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نوائے وقت کو معتبر ذرائع نے بتایا کہ کابینہ کے ارکان نے مسودے کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے مسئلہ سے م¶ثر طور پر نمٹنے کیلئے تجاویز دی ہیں جس پر وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کے مسودے کو بہتر بنانے کی ہدایت کی اور کابینہ کے ارکان کی تجاویز کا جائزہ لیکر انہیں بھی مسودے میں شامل کرنے کی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق اس بنیاد پر قومی سلامتی پالیسی کے مسودہ کی منظوری کابینہ کے اگلے اجلاس تک م¶خر کردی گئی۔ دریں اثناءوفاقی کابینہ میں پیش کی جانیوالی 35 نکاتی قومی سلامتی پالیسی کے نکات سامنے آ گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق مذاکرات نہ کرنے والے مقامی طالبان کو الگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم سکیورٹی پالیسی میں طالبان سے مذاکرات کا کوئی ذکر نہیں۔ قومی سلامتی پالیسی تین حصوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلا حصہ خفیہ، دوسرا حکمت عملی اور تیسرا حصہ آپریشنل ہوگا۔ پالیسی کے نفاذ کیلئے 28 ارب روپے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پالیسی کے مطابق غیرملکی طالبان کی نشاندہی کی جائیگی۔ غیرملکی طالبان کی حکومتوں کے ساتھ رابطہ کیا جائیگا۔ حساس اداروں کے ذریعے کمیونی کیشن نیٹ ورک کی ٹریکنگ کی جائیگی۔ 26 سکیورٹی اداروں کی استعداد کار بڑھائی جائیگی۔ ریپڈ رسپانس فورس تشکیل دی جائیگی۔ جوائنٹ انٹیلی جینس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائیگا۔ 26 ادارے اور ایجنسیاں مشترکہ ڈائریکٹوریٹ کے تحت کام کریں گی۔ مسودہ کے مطابق غیر ملکی طالبان کی نشاندہی کے بعد انکی متعلقہ حکومتوں سے رابطہ کیا جائیگا۔ حساس اداروں کے ذریعے کمیونی کیشن نیٹ ورک کی ٹریکنگ کی جائیگی۔ ذرائع نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ کابینہ کے ارکان کو صرف پڑھنے کیلئے دیا گیا، بعد میں یہ مسودہ واپس لے لیا گیا۔مسودے پر نوٹ چسپاں تھا کہ اسے پڑھ کر واپس کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق رواں ہفتے وفاقی کابینہ کا اجلاس دوبارہ بلا کر مسودے کی منظوری دی جائیگی۔فی الحال اسے مو¿خر کردیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کابینہ کے ارکان کی جانب سے پیش کی گئیں تجاویز کو پالیسی کا حصہ بنایا جائیگا۔ کابینہ کے آئندہ اجلاس میں داخلی سلامتی کی پالیسی پر مزید غور کیا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں بعض ارکان نے اپنی سفارشات مسودہ میں شامل کرنے کی درخواست کی جس پر وزیراعظم نے کابینہ ارکان کی سفارشات کو مسودہ میں شامل کرکے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ ہنگامی بنیادوں پر انسداد دہشت گردی کی عدالتیں قائم کرکے پراسیکیوٹر مقرر کئے جائیں گے۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں بنوں اور راولپنڈی میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پرغور کیا گیا۔ اجلاس میں طالبان کے ساتھ مذاکرات اور آپریشن دونوں آپشنز کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا کہ مذاکرات نہ ہونے کی صورت میں طاقت کا استعمال لایا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس میں اپنی تجاویز دیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکومتی اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے رائے کا اظہار کیا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کابینہ کا اجلاس آئندہ تین چار روز میں دوبارہ بلایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کابینہ کے اجلاس طالبان سے مذاکرات کے بارے میں بتایا کہ بعض گروپ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرچکے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان پر واضح کیا گیا ہے کہ جو بھی آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر مذاکرات کرنا چاہتا ہے حکومت اس کے لئے تیار ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے جس کے مطابق وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کو مزید بہتر بنانے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی میں بہت سے پہلوﺅں میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زاہد حامد آپ پالیسی کو جامع بنانے کے لئے مدد کریں۔ وزیراعظم نے چودھری نثار کو ہدایت کی کہ پالیسی بہتر بنانے کے لئے مزید وزرا کی خدمات لیں۔ ڈاکٹر نواز شریف نے کراچی میں قید خطرناک قیدیوںکو دوسرے صوبوں میں منتقل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ خطرناک قیدی کراچی کی جیلوں میں بیٹھ کر آپریٹ کررہے ہیں۔ مسودے کے مطابق انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مشترکہ ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا جس کا مشترکہ سربراہ تعینات کیا جائے گا۔ آن لائن کے مطابق اجلاس میں نئی قومی سلامتی پالیسی پر وزراءاور وزارتوں کی کم علمی اور مناسب طور پر تیاری نہ ہونے پر وزیراعظم نے اظہار برہمی کیا اور سرزنش کی، متعلقہ وزارتوں کو اہم قومی معاملے پر باہمی مشاورت اور تعاون میں اضافے کی ہدایت کی گئی۔ پالیسی کی منظوری ایجنڈے میں شامل تھی۔ وزیر داخلہ نثار علی خان اور سیکرٹری داخلہ نے اجلاس کو نئی قومی سلامتی پالیسی پر بریفنگ بھی دی۔ اجلاس کی اندرونی کہانی سے باخبر ذرائع نے بتایا کہ وفاقی وزیر اور سیکرٹری داخلہ کی جانب سے دی گئی بریفنگ کے بارے میں دیگر متعلقہ وزارتوں کے وزراءاور حکام مکمل طور پر تیار اور باعلم نہیں تھے۔ خصوصاً وزارت قانون کے افسر اور وزیر نئی قانون سازی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور اثرات کے بارے میں کابینہ کی تسلی نہ سکے۔جس پر میاں نواز شریف نے اظہار برہمی بھی کیا اوروزیروں کو آپس میں تعلقات کار بہتر بنانے کی بھی ہدایت کی۔ ذرائع نے بتایا کہ جونہی چودھری نثار علی خان نے بریفنگ ختم کی تو مختلف وزیروں نے اعتراضات شروع کردیئے۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب سے جب اس بارے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ کابینہ کا اجلاس آئندہ چند روز میں ہوگا۔ جس میں قومی سلامتی پالیسی کے بارے میں مختلف وزارتیں اپنا موقف پیش کریں گی۔ توقع ہے کہ اسی اجلاس میں پالیسی کو منظور کرلیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سکیورٹی پالیسی پر اتفاق نہ ہوسکا۔ رواں ہفتے اجلاس دوبارہ ہوگا۔ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا وزیراعظم نے وزارت داخلہ اور وزارت قانون سے پالیسی کے حوالے سے تین روز میں رپورٹ طلب کی ہے۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزارت داخلہ کی تیار کردہ قومی سلامتی کی پالیسی کا مسودہ وفاقی وزراءسے ”مطالعہ“ کے بعد واپس لے لیاگیا۔اس پر چسپاں تھا کہ ”اسے پڑھ کر واپس کردیا جائے“ اجلاس میں بیشتر وزراءمسودے کا مطالعہ ہی نہیں کرپائے کہ ان سے مسودہ واپس لے لیاگیا۔ ملک کے تمام بڑے شہروں میں کیمرے نصب کئے جائیں گے جدید سکیننگ سسٹم نصب کئے جائیں گے۔ سیکیورٹی اہلکاروں کی استعداد بڑھائی جائے گی۔ بڑے شہروں کے داخلی راستوں پر سکیننگ سسٹم لگایا جائے گا قومی سلامتی کی پالیسی میں خفیہ ایجنسیوں کے درمیان م¶ثر رابطے کا میکنزم تجویز کیا گیا۔

مزیدخبریں