سوئی گیس، بجلی کی حیران کن نایابی، بلدیاتی عشاق کی ناقدری، میٹرو اورنج لائن کا جنون، پاک چین راہداری، پٹھانکوٹ کا معمہ، افغان امن مذاکرات، کشمیر میں روز افزوں ظلم، اوباما کی جنتری اور عارف والا ریلوے سٹیشن کا جنازہ… ذہن پر چلنے والے مسائل کے چھوٹے بڑے ہتھوڑے، شاید آپ چونک جائیں کہ عارف والا ریلوے سٹیشن کا ذکر اتنے بڑے بڑے مسائل کے درمیان چہ معنی دارد، خاطر جمع رکھیں کالم کے آخر میں یہ بات کھل جائیگی۔ موضوعات چونکہ بہت سے ہیں اور ہیں بھی ایک سے ایک بڑھ کے اہم توآیئے پیانو کی ساری دھنوں پر انگلی گھما دیتے ہیں۔
سب سے پہلے سوئی گیس… گھریلو خواتین کچن کے برتن اٹھائے سڑکوں پر ہیں، وزیر توانائی فرماتے ہیں قطر سے گیس کا ریٹ طے ہوگیا ہے ماشااللہ۔ بجلی کا مسئلہ… درزی، فرنیچر، خراد، ویلڈنگ، پنکچر والے، مستری،مزدور کہتے ہیں سردیوں کے دن چھوٹے اوپر سے بجلی غائب، کاروبار ٹھپ، کیا کمائیں کیا کھائیں؟ وزیر بجلی فرماتے ہیں 2018ء میں 20 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہوجائیگی سبحان اللہ۔ بلدیاتی کونسلر کہتے ہیں ہمارے اختیارات معاوضے اور ترقیاتی فنڈز کی بات کرو۔ حکومت کہتی ہے صبر کرو، امید کا دامن دونوںہاتھوں سے مضبوطی سے تھام رکھو ایسا نہ ہو یہ دامن ہاتھ سے پھسل جائے اور تم کسی گڑھے میں جاگرو۔ حلف کے بعد ابھی ٹریننگ تربیت کا مرحلہ آئیگا، حسینۂ جمہوریت پردے سے باہر آئیگی، آئینہ خانے میں دید نظارہ ہوگا مگر کھنگورے مارنے اور اشارہ بازی کی اجازت نہیں ہوگی۔ اورنج لائن، میٹروبس کے راستے بند کرنیوالے اندھوں کا انجام دیکھ کر اورنج لائن کے مخالفین کے چھکے چھوٹ چکے ہیں بلکہ اس نوعیت کے سارے مہم بازوں کے دماغ ٹھکانے آگئے ہیں۔ وزیراعلیٰ فرماتے ہیں جنوبی پنجاب کا اللہ وارث ہے، میرا ذمہ لاہور کا ہے انشاء اللہ لاہور کو پیرس بنا کر دم لوں گا۔
پٹھانکوٹ… لائی بے پروا نال یاری تے ٹٹ گئی تڑک کرکے، پینگ جونہی چھجو کے چوبارے تک پہنچتی ہے، کوئی ان دیکھا ہاتھ رسی توڑ دیتا ہے۔ سنا ہے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ پینگ میں جندال کے لوہے سے بنی زنجیر استعمال کی جائیگی۔ مشیر خارجہ کہتے ہیں بھارت کو باہمی مذاکرات کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہے، واللہ اعلم… افغان امن مذاکرات کہاں ہونے ہیں، کون کر یگا، اس پر غور کرنے کیلئے چار گروہی وفود کا تبادلہ ہوگیا، اب اگلی قسط کیلئے شوٹنگ جاری ہے۔ رہا کشمیر تو یہ سدا بہار موضوع ہے۔
اوباما جنتری… امریکی صدر نے اپنے طلسمی گیند میں پاکستان کو آئندہ کئی عشروں تک تارِ عنکبوت سے لٹکتے دیکھ کر فرمایا ہے کہ القاعدہ، داعش اور دہشت گردی کے جراثیم بنانے والی لیبارٹریاں کام کرتی رہیں گی، اس پر مشیر خارجہ نے ترت جواب دیا لیکن کسی پاکستان افسر، وزیر یا اہم حکومتی عہدیدار کے کان پر سنجیدہ جون نہیں رینگی۔ البتہ ’’برملا‘‘ والے بھائی نصرت کی نیند اچاٹ ہوگئی جس پر انہوں نے ٹیپ چڑھی سات ربڑی گیند سے سپن کیا۔ اتفاق سے یہ گیند اوباما کے بیٹ کو چھوکر ہمارے ہاتھوں میں آگئی، ہم نے کیچ تو کرلیا مگر گیند پھسل کر عارف والا ریلوے سٹیشن کے ہزاروں کنال وسیع احاطے میں جاگری ہے جہاں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہیں۔ ایک تہائی زمین برساتی آڑھتیوں کے خیموں کی زد میں ہے، ٹنوں وزنی لوہے کے گارڈر غائب ہیں جن کے بارے کہا جاتا ہے کہ لاہور کی کسی فائونڈری میں پگھل کر عجائبات میں ڈھل چکے ہیں۔ اکلوتی ٹرین فرید ایکسپریس آتی ہے، ویرانی کا نوحہ گنگناتی چلی جاتی ہے، یہاں تک لکھ چکا تو خیال آیا شاید اوباما نے گوگل پر سٹیشن کا یہ منظر دیکھ کر محمول کرلیا کہ سارا پاکستان یہی کچھ ہے اور اپنی جنتری میں آئندہ کا حال لکھ دیا۔ یہ سوچتے ہی آنکھیں بھیگ گئیں کیونکہ نہ عارف والا سٹیشن ایسا تھا نہ پاکستان بلکہ بچپن گواہ ہے کہ اس سٹیشن پر سے روزانہ دس پندرہ مسافر گاڑیاں اور اس سے زیادہ مال گاڑیاں چھک چھک کرتی گزرا کرتی تھیں۔ مال گودام کے پلیٹ فارم مال اسباب سے لبالب رہتے۔ مال گاڑی کے ڈبے قطار اندر قطار دور تک جیسے دیوار چین… مسافروں کی ایک گاڑی گزرتی تو دوسری کا اعلان ہورہا ہوتا۔ مسافر خانہ جیسے انارکلی بازار۔ سٹیشن کے چاروں طرف باڑ، باقاعدہ گیٹ، بلاٹکٹ آناجانا ناممکن۔ اب نہ باڑ ہے نہ در نہ دربان۔ آوارہ کتے، جانور بھیڑ بکریوں کے ریوڑ خاک اڑاتے پھرتے ہیں۔ ریلوے سٹیشن کا کچھ سلامت نہیں۔ مسافر خانہ بوجہ خستگی خاردار سرکنڈے سے بند ہے، مبادا کوئی اچانک گرتی چھت کا شکار ہوکر بڑی خبر بناڈالے، تجاوزات ہی تجاوزات، 1857 کی جنگ آزادی۔ غدر کے بعد اجڑی دلّی کا منظر ہے۔ غضب اس پر یہ کہ چار پانچ سال سے بجلی تک کٹی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ اب ضرورت ہی نہیں کیونکہ موم بتی سے کام چلانے کی عادت پکی ہوگئی ہے۔ واپس پتھر کے زمانے میں پہنچنے کا یہی ثبوت کافی ہے۔ غالباً اوباما نے یہی منظر دیکھ کر نعرئہ بربادی بلند کیا ہے۔ ہماری تووزیر ریلوے سے اب یہی گزارش ہے کہ قدم رنجہ فرمائیں، فرید ایکسپریس میں عام مسافر کے بھیس میں لٹک کر آجائیں اور ثواب دارین کیلئے اس تیار میت کا جنازہ پڑھا جائیں تاکہ اس سے اٹھنے والی یادوں کی سڑاند اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونیوالی آہوں کی بدبو ہمیشہ کیلئے دب جائے۔ گستاخی معاف یہ جو عام مسافر کی حیثیت سے آنے کا مشورہ دیا ہے، اس کا برا نہ منایئے کیونکہ اگر آپکے آنے کی بھنک مقامی اہل طریقت کو پڑگئی تو وہ حقائق کو چھپانے کیلئے سائبانوں، قناتوں کا گنبد بے در کھڑا کردیں گے جس کو عبور کرنا شاید آپ کیلئے سکیورٹی رسک قرار پائے۔ اگر آپ یہ کارخیر کر گزریں یعنی مردہ دفن کردیں تو شاید اوباما دوبارہ گوگل پر پاکستان کا نقشہ دیکھ کر اپنے نظریات کی اصلاح کرلے۔
اوباما کی جنتری اور عارف والا ریلوے سٹیشن کا جنازہ
Jan 21, 2016