خورشید محمود قصوری پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ہیں۔ اس عہدے پر ان کے علاوہ بھی بہت سے لوگ فائز رہے ہیں لیکن خورشید محمود قصوری کی باڈی لینگوئج یہ بتاتی ہے کہ وہ باقی تمام پاکستانی وزرائے خارجہ سے اہم اور کامیاب وزیر خارجہ تھے۔ اُنکے مزاج کی یہ انفرادیت بھی ہے کہ وہ اپنوں کو خشک مزاجی کے ذریعے مرعوب کرنے اور بیرون والوں کے سامنے خوش مزاجی کے ذریعے مرعوب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسکی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ جیسے کوئی نیم مڈل کلاس فرد اپنے گھر والوں کے ساتھ خشک مزاجی اور اکھڑ پن کا رویہ رکھے مگر باہر والے طاقتوروںکیساتھ خوش مزاجی اور اخلاق کیساتھ پیش آئے۔ خورشید محمود قصوری نے چند دن پہلے حامد میرکو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’’2006ء میں جب وہ وزیر خارجہ تھے تو ایک دن اچانک اُردن کے بادشاہ کا جہاز اسلام آباد اتر گیا۔ انہوں نے اُردن کے بادشاہ کو ایئرپورٹ سے لیا اور سیدھا ایوانِ صدر لے گئے‘‘۔ اُنکے کہنے کیمطابق ’’اُردن کے بادشاہ، سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ اور امریکی صدر بش کا خصوصی پیغام لیکر آئے تھے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل میں صلح کروا دی جائے‘‘۔اسی گفتگو میں انہوں نے ایک اور انکشاف بھی کیا کہ ’’ امریکہ اور ہندوستان کی سِول نیوکلیئر ڈیل کی طرح کی ایک ڈیل پاکستان بھی امریکہ سے چاہتا تھا۔ اس کیلئے اُس وقت کے پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے امریکہ میں یہودی بزنس مین گروپ سے خطاب بھی کیا تاکہ امریکہ میں پاکستان مخالف اسرائیلی لابی کو رام کیا جاسکے‘‘۔ اسی کوشش کے ایک اور پہلو سے پردہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’وہ جیمز بانڈ کی طرح خفیہ طور پر اسرائیلی وزیر خارجہ سے بھی ملے‘‘۔ خورشید محمود قصوری نے اس ملاقات کو انتہائی ڈرامائی بتاتے ہوئے کہا کہ ’’مذکورہ ملاقات کو خفیہ رکھنے کیلئے بتیاں تک بجھا دی گئیں اور انہیں پاکستان سے غیرروایتی ہوائی راستوں کے ذریعے منزل تک پہنچایا گیا۔ اس ملاقات کی میزبانی ترکی نے کی‘‘۔ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ اسرائیلی وزیر خارجہ نے پوچھا کہ ’’پاکستانی فلسطینیوں سے زیادہ فلسطینی کیوں ہیں؟ اگر پاکستان چاہے تو اسرائیل پاکستان کو انتہائی جدید ٹیکنالوجی یعنی ہائی ٹیک دینے کو بھی تیار ہے‘‘۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کی اس آفر پر خورشید محمود قصوری نے پوچھا کہ ’’اسکی قیمت کیا ہوگی؟‘‘ اسرائیلی وزیر خارجہ کا جواب تھا کہ ’’ پاکستان صرف اسرائیل کو تسلیم کرلے‘‘۔خورشیدمحمود قصوری نے گلہ بھی کیا کہ ’’یہ بات انہوں نے اپنی کتاب میں بھی لکھی ہے لیکن کسی نے اس پر غور نہیں کیا بلکہ اس کتاب میں سے صرف ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات سے متعلق چیزوں کو ہی اچھالا گیا‘‘۔ خورشید محمود قصوری کے مذکورہ انٹرویو پر چند مختلف نکات کا تجزیہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے یہ کہ انہوں نے شکوہ کیا کہ ان کی کتاب میں سے دوسرے اہم موضوعات کو نظرانداز کرکے صرف ہندوستان پاکستان کے معاملات کو زیربحث لایا گیا۔ اس ضمن میں تحریرہے کہ خورشید محمود قصوری نے اپنی کتاب پر بہت سی پریس ریلیزیں جاری کیں، بہت سے مضامین لکھوائے، بہت سے سیمینار منعقد کروائے،بہت سے انٹرویوز دیئے ،ہندوستان میں اپنے میزبان کا منہ کالابھی کروایا گویا کتاب کی ہر طرح سے پبلسٹی کروائی لیکن اِن سب سرگرمیوں میں خود انہوں نے بھی ہندوستان پاکستان تعلقات کے علاوہ کسی دوسرے موضوع کو کبھی اہمیت نہیں دی۔ گویا وہ جانتے تھے کہ کتاب بیچنے کیلئے ہندوستان پاکستان اچھی مارکیٹ ہے لہٰذا صرف اسی موضوع کو آگے رکھا جائے۔ اسرائیل کیساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کے حوالے سے انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ جنرل مشرف کے یہودی بزنس کمیونٹی سے خطاب کرنے اور اُنکے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملنے کے باوجود امریکہ سے سِول نیوکلیئر ڈیل کیوں نہ ہوسکی؟ یہ بات بھی پوچھنے کی ہے کہ کیا خورشید محمود قصوری جیسے ’’گھاگ‘‘ وزیر خارجہ کو اس بات کا پہلے سے اندازہ نہیں تھا کہ جب وہ اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملیں گے تو وہ سب سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرینگے؟ یا خورشید محمود قصوری ترکی کے علاوہ کسی تیسرے دوست اسلامی ملک کو انڈر ایسٹی میٹ کرکے یہ کام کرنا چاہتے تھے اور عین موقع پر پکڑے گئے؟ اُن کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اقوام متحدہ کے ایک پروگرام کے دوران جب جنرل پرویز مشرف اور اسرائیلی وزیراعظم نے سرراہ اچانک مصافحہ کیا تو کیا یہ بھی پہلے سے طے شدہ تھا؟ خورشید محمود قصوری نے کہا کہ اُردن کے بادشاہ سعودی عرب اور امریکہ کا پیغام لے کر آئے تو انہوں نے اُس پیغام کو ایران کی ناراضگی کے خطرے کے باعث قبول نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنرل پرویز مشرف اور خورشید محمود قصوری نے سعودی عرب پر ایران کو ترجیح دی یا اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کو انکار کرکے یہ جتلانا چاہتے تھے کہ شاہ عبداللہ نے اپنی ولی عہدی کے دوران 1999ء کے بعد نواز شریف کیخلاف بغاوت میں جنرل پرویز مشرف کی بجائے نواز شریف سے ہمدردانہ رویہ رکھا اور اُس وقت کے ولی عہد شہزادہ عبداللہ اور بعد کے بادشاہ شاہ عبداللہ نے ہی مختلف ذرائع استعمال کرکے نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے پنجوں سے چھڑایا یا شاہ اردن کے مذکورہ خفیہ دورے کے خفیہ پیغام کا متن کہیں کیا یہ تو نہیں تھا کہ پاکستان فلسطینیوں کے شیعہ دھڑے کیخلاف عملی جنگی مدد کرے یا شاہ اردن کے دورے کا اصل معاملہ وہ نہیں تھا جو خورشید محمود قصوری اب بتا رہے ہیں؟ جب اسرائیلی وزیر خارجہ نے انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے عوض پاکستان کو ہائی ٹیکنالوجی دینے کی پیشکش کی تو خورشید محمود قصوری اس پیشکش میں اضافہ کروا کے کیا کشمیربھی مانگ سکتے تھے؟ خورشید محمود قصوری کے بتائے ہوئے شاہِ اُردن کے اچانک دورے سے اچانک یہ سوال بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ پچھلے ماہ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا اچانک لاہور اترنا کیا نواز شریف کو کوئی خفیہ پیغام پہنچانا تو نہیں تھا؟کیا پاکستان کو خارجہ تعلقات میں کوئی مشورہ دیا گیاہے ؟ کیا یہ پیغام روس کی طرف سے بھی ہوسکتا ہے؟