دیر آید درست آید‘ پاکستانی حکمرانوں نے بالآخر کہہ دیا کہ وہ آئندہ پرائی جنگ میں نہیں کودینگے۔ افغان جنگ میں امریکہ کیساتھ مل کر روس کیخلاف نبرد آزمائی کرنیوالوں کو عالم گیر حقیقتوں کی بہت دیر بعد سمجھ آئی مگر آ تو گئی۔ جمہوری ادوار میں پارلیمنٹ اور اقتدار کے ایوانوں میں عوام کی سوچ غالب ہوتی ہے جبکہ غیر جمہوری عہد شخصی اور فرد واحد کی سوچ کے غماز ہوتے ہیں۔ مورخین کو یہ لکھنے میں کوئی تامل نہیں کہ ہم نے دو عالم گیر سطح کی جنگوں میں دامے‘ درمے‘ قدم‘ سخنے بھرپور حصہ لے کر خود کو ناکارہ اور تباہ کر لیا۔ ایک افغان جنگ اور دوسری نائن الیون کی جنگ ایسے دہشتگردوں کیخلاف تھی جو صرف امریکہ کی تباہی چاہتے تھے‘ وہ ہمارے خلاف تھے‘ نہ ہی ہمیں ملیامیٹ کرنا چاہتے تھے‘ لیکن جنگ میں امریکہ کیساتھ کندھا ملا کر کھڑا ہونے کا مطلب تو یہی تھا ناں کہ ہم بھی ان دہشتگردوں کے ہدف پر آنا چاہتے تھے۔ پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا متذکرہ جنگ میں امریکی مفادات جس تیز رفتاری سے پورے ہونے شروع ہوئے اسی سرعت سے اس نے ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ بھی شروع کر دیا‘ یہی نہیں اسکی آنکھیں بھی ماتھے پر آتی گئیں۔ نوبت بہ اینجا رسید کہ دو بڑی جنگوں میں امریکہ کا ساتھ دینے اور تقریباً ایک لاکھ جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود آج امریکی صدر بارک اوباما فرماتے ہیں کہ آئندہ سالوں میں بھی پاکستان میں عدم استحکام ختم نہیں ہو سکے گا۔ سرتاج عزیز نے سینٹ آف پاکستان کے فلور پر کھڑے ہو کر درست فرمایا کہ متذکرہ بالا پاکستان دشمن پیشنگوئی کرتے ہوئے بارک اوباما کو یہ بھی بتانا ہو گا کہ آج تک ان کی کون سی پیشنگوئی درست ثابت ہوئی‘ نیز یہ حقیقت خود سر چڑھ کر بول رہی ہے کہ جنوبی ایشیا کے اس خطے میں خود امریکی پالیسیاں ہی عدم استحکام کا موجب بنی ہوئی ہیں‘ امریکی اقدامات نے ہی داعش کو بدترین دہشت گردی کی راہ دکھائی۔ علاوہ ازیں امریکہ اور اسکے اتحادی دنیا کے جس بھی خطے میں قدم رنجہ ہوئے انہوں نے وہاں ایسے ہی گل کھلائے۔ سرتاج عزیز کے سینٹ آف پاکستان میں بیان کا سب سے حساس اور معنی خیز جملہ وہ تھا جس میں انہوں نے کہا دنیا کو خیال کرنا چاہئے کہ بارک اوباما کے پاکستان بارے حالیہ بیان کے پس منظر میں کوئی نیا امریکی ایجنڈا بھی کارفرما ہو سکتا ہے۔
سوال صرف ایک ہے امریکہ آخر پاکستان سے چاہتا کیا ہے؟ عالمی منظر نامے پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ امریکی حکمران پاکستان سے نفسیاتی سطح پر دو دو ہاتھ کرنے کے بعد اسے مستقل طورپر زیر نگین رکھنے کی درینہ پالیسی پر گامزن ہیں۔ اس خاطر وہ بسااوقات اپنی بنیادی حکمت عملی میں بھی ترامیم کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی عوامی جمہوریہ چین سے قربت اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات امریکہ کیلئے ناقابل برداشت ہیں۔ امریکی قیادت پاکستان کو ایک ایسی حد میں رکھنا چاہتی ہے‘ جو اسکے اپنے مفادات کی کڑیوں کے ساتھ منسلک رہے اور جب کبھی وہ چاہیں اس حکمت عملی کے تحت وہ پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر سکیں۔ امریکی قیادت بظاہر کہتی تو یہ ہے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور انصاف دیکھنا چاہتی اور اسی کو سپورٹ بھی کرتی ہے لیکن پردے کے پیچھے امریکیوں کے عزائم جب پورے ہوتے ہیں‘ جب جب پاکستان میں آمریت کی آبیاری ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکمرانوں کو ذوالفقار علی بھٹو سمیت نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی جمہوری حکومتیں راس نہ آئیں اور ان کا دھڑن تختہ ہونے کے بعد ہی امریکی عزائم پورے ہوئے۔ افغان جنگ میں پاکستان امریکہ کا حلیف اس وقت ہی بن سکا جب ذوالفقار علی بھٹو کو منظر سے ہٹا کر ضیاء الحق ایسے آمریت کے پروردہ کو عنان اقتدار مل گیا۔ افغان جنگ بھی کیا تھی ایک لاحاصل امتحان تھا جو پاکستانی حکومت اور عوام پر مسلط کیا گیا۔ ہمارے مجاہدین بیگانی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا کردار ادا کرتے رہے اور پتہ اس وقت چلا جب افغان جنگ کی جیت امریکہ کی جھولی میں ڈالنے کے بعد اوجڑی کیمپ پھٹ پڑا اور سٹنگر میزائل فضا میں آتش بازی کے پٹاخوں کی طرح تیرتے نظر آئے۔ یہ عجب پتلی تماشا تھا‘ جو امریکہ کے چہرے سے پہلا نقاب الٹا گیا۔ پارلیمانی تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں سرتاج عزیز کا بیان جرأت رندانہ کا ایک ایسا واقعہ ہے‘ جس میں دلیری اور ہمت مرداں کا جوہر صاف جھلکتا ہے۔ انہوں نے سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے ایک اور بات بھی پتے کی کہی یعنی اوباما کے خدشات کی کئی اور بھی وجوہات ہو سکتی ہیں‘ سرتاج عزیز کو یہ وجوہات بتانا چاہئے تھیں‘ لیکن انہوں نے اس جانب صرف اشارہ ہی کافی سمجھا۔ سینیٹ میں بحث کے دوران یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ اوباما کا بیان حقائق کے یکسر منافی ہے۔ شاید انہوں نے یہ بیان پینٹاگون کے کہنے پر دیا لیکن ایک بات طے ہے امریکہ کسی بھی صورت پاکستان میں امن اور اطمینان کی کیفیت پیدا نہیں ہونے دیگا۔ ضرب عضب کے نتائج جتنے شفاف طریقے سے سامنے آرہے ہیں‘ امریکہ کی طرف سے اس مساعی کو سبوتاژ کرنے کی حکمت عملی کا کھل کر اظہار ہو رہا ہے۔ اسکی وجہ صاف ظاہر ہے کہ امریکہ جنوبی ایشیاء کی سیاست سے اپنے مفادات کے تحت عدم اطمینان کا شکار ہے‘ اس خطے میں سراسر اس کے عزائم کیخلاف کام ہو رہا ہے‘ جو اس کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ پاکستان‘ چین اور روس کی قربتوں کیخلاف اس نے بھارت کو استعمال کرنے کی پالیسی بھی واضح طورپر اپنا رکھی ہے‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بھارت منافقت کر رہا ہے‘ امریکہ کیساتھ بھی اور اسکے مخالفین کیساتھ بھی۔ بھارتی پالیسیوں کا ادراک امریکی قیادت کو پہلے سے تھا‘ اب اسکے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ پاکستان کو اپنی حکمت عملی کے تحت خود کنٹرول کرے لیکن شاید اسے علم نہیں پاکستانی عوام تاریخی اعتبار سے زیادہ تر امریکہ کے ہی ڈسے ہوئے ہیں‘ ان کی روح اور جسم پر جتنے بھی زخم موجود ہیں‘ وہ امریکی حکمرانوں کیلئے دیئے ہوئے ہیں‘ لیکن پاکستان کے امریکی گماشتوں کی فہرست بھی اتنی ہی طویل ہے‘ جتنی کہ دشمنان پاکستان کی۔ یہی وہ گماشتے ہیں جو مارشل لاؤں اور دیگر غیر جمہوری طریقوں سے برسراقتدار آئے اور امریکہ کے پٹھو بن کر ہمہ وقت اس کے عزائم کی تکمیل کرتے رہے۔ شاید اب یہ دروازہ بند ہو چکا ہے‘ اسی لئے امریکی حکمران پاکستان بارے منفی پیشنگوئیوں پراتر آئے ہیں۔